مکرم ومحترم مصدر مکارم دام فضلکم السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،
گرامی نامہ موجبِ برکت ہوا کئی روز تک تو یہ خیال رہا کہ مسئلہ کے متعلق کچھ عرض کروں یا نہ کروں مبادا تکرار موجبِ بار ہو بالآخر یہ خیال ہوا کہ اپنا خیال ایک دفعہ اور عرض کردوں، اس وقت مجھ کو دو امر عرض کرنے ہیں، ایک: تو دیوار کے متعلق کہ مسجد ہے یا نہیں، دوسرے: سائبان کے متعلق إلخ۔
معروضِ احقر بجواب مکتوب سوم (بعد القاب وآداب) والانامہ نے مشرف فرمایا، اظہارِ حق کا تکرار حاشا وکلا کہ قلب پر بار ہو اور بحمد اللہ مجھ کو تو عادت ہے کہ جب کسی امر کا حق ہونا واضح ہوجاتا ہے پھر اپنی رائے پر اصرار نہیں ہوتا، سو اب تک اسی کا انتظار ہے جو نہیں ہوا۔ اور مجھ کو بھی تکرار في الجواب خلافِ ادب معلوم ہوتا ہے، مگر تحقیق نے اس پر جری کیا إلخ والسلام خیر الختام ۱۲؍ ذی قعدہ ۱۳۳۱ھ تمت المکاتب
تنبیہ: گو پھر اس معروض کا جواب نہیں آیا، مگر اس جواب نہ آنے کو حجت نہ سمجھا جاوے، چوں کہ اس کا سبب کوئی عارض بھی ہوسکتا ہے، مثلاً وہی امر جو مکتوب سوم کے شروع میں مذکور ہے اس لیے اب بھی ضرورت ہے کہ اس باب میں اہلِ علم سے مزید تحقیق کرلی جاوے جیسا تمہید میں عرض کیا گیا۔ فقط
۱۱۔ صفحہ ۱۱: ’’حکایات الشکایات‘‘ حضرت حکیم الامت کی ایک مستقل تالیف ہے جو مستقل بھی چھپی ہے، مگر وہ نہیں ملی لیکن یہ مضمون ’’الامداد‘‘ بابت ماہ جمادی الثانیہ ۱۳۳۶ھ سے شروع ہوا ہے، جس کی تمہید میں حضرت حکیم الامت نے لکھا ہے: بعد حمد وصلاۃ کے یہ احقر عرض رساں ہے کہ ایک مدتِ دراز سے مجھ پر عنایت فرماؤں کی طرف سے بے جا اعتراضوں کی بوچھاڑ ہے جس میں سے اکثر کا سبب تعصّب وتخرّب ہے جس کے جواب کی طرف احقر نے اس لیے کبھی التفات نہیں کیا کہ میں نے ان اعتراضوں کو قابلِ التفات نہیں سمجھا، نیز یہ بھی خیال ہوا کہ آج کل جواب دینا قاطعِ اعتراضات نہیں ہوتا بلکہ اور زیادہ مطولِ کلام ہوجاتا ہے تو وقت بھی ضائع ہوا اور غایت بھی حاصل نہیں ہوئی، تیسرے مجھ کو اس سے زیادہ اہم کام اس کثرت سے رہا کیے کہ اس کام کے لیے مجھ کو وقت بھی نہیں مل سکتا تھا۔
چوتھے میں نے جہاں تک دل کو ٹٹولا ایسے اعتراضوں کے جواب دینے میں نیت اچھی نہیں پائی، میں اہلِ خلوص کو تو کہتا نہیں مگر مجھ جیسے مغلوب النفس کی نیت تو زیادہ یہی ہوتی ہے کہ جواب نہ دینے میں معتقدین کم ہو جاویں گے، شان میں فرق آجائے گا جس کا حاصل ارضائے عوام ہے سو طبعاً مجھ کو اس مقصود یعنی ارضائے عوام سے غیرت آتی ہے۔ باقی بعض محبین کی یہ توجیہ کہ اعتراض سے عام مسلمانوں کو بدگمانی کا گناہ ہوتا ہے تو جواب سے ان کا اس گناہ سے بچانا ہے، تامل کے بعد یہ توجیہ برائے گفتن ہی معلوم ہوئی ہے، کیوں کہ مسلمان دوسرے ہزاروں گناہوں میں مبتلا ہیں ان سے