منکوحہ قطعاً اس کے نکاح میں ہے اور اسے ہرگز دوسرا نکاح جائز نہیں۔
اگر اس کی یہ حالت بے خودی وبے اختیاری معروف ہو جب تو حکمِ قضا ودیانت میں کوئی فرق ہی نہیں۔ اور اگر یہ حالت معروف نہ ہوتا ہم بوجوہ مذکورہ بالا قضائً بھی بلا قسم یا زیادہ سے زیادہ قسم کے ساتھ تصدیق کی جائے گی، انتھت اور اصل مدعی میں یہ سب فتوے متحد ہیں یعنی ۱۔ عدم حکم بالارتداد ۲۔ بقائے نکاحِ زوجہ ۳۔ عدمِ جوازِ نکاحِ زوجہ بالزوج الثانی۔ اور جو امور زائد علی اصل المدعی ہیں مثلاً: امر بتجدید نکاح والمان احتیاطاً، ان میں گو نہ اختلاف یہ معتد بہ اختلاف نہیں۔ پس ان فتووں کے باہم متخالف ہونے کا شبہہ نہ کیا جائے۔ اب میں اس باب میں علما کی تحقیقات کو (جن میں بعض میرے اس شخص کو معذور سمجھنے کی بنا پر حکمِ فقہی سے تعرض کے ضروری نہ جاننے کی من کل الوجوہ مؤید ہیں) ظاہر کرکے سبکدوش ہوتا ہوں۔
اب علما اپنی تحقیق سے اور عوام اپنے معتقد فیہ علما کی تقلید سے اور اسی طرح صاحبِ واقعہ بھی ان فتووں کی تنقیح سے حکمِ فقہی معلوم فرمالیں۔ رہا پانچواں الزام سو واقعی میرے نزدیک یہ واقعہ اتنا ظاہر تھا کہ اس میں کسی ایسے شبہہ کی گنجائش میرے ذہن میں نہ تھی، اور کسی شبہہ کی گنجائش نہ ہونے ہی کے سبب میں نے جوابِ مجمل کو کافی سمجھا تفصیل کی حاجت نہ سمجھی، تو اس حالت میں اس کی اشاعت میں کسی مفسدہ کا احتمال کیوں کر ہوسکتا تھا، اور جب اس کا احتمال نہ تھا تو گو اشاعت میں نے نہیں کی، مگر اس کی اشاعت کو روکا بھی نہیں بالخصوص جب کہ اس کی اشاعت میں یہ فائدہ بھی سمجھتا تھا کہ اگر کسی کو ایسی حالت پیش آوے تو وہ تلبیس سے محفوظ رہ کر اپنے جان وایمان کو بچا سکے اور ایسا ہی شخص اس فائدے کی قدر بھی کرسکتا ہے، ورنہ غیر صاحب حال کیا جانے بقول کسے:
اے ترا خارے بپاں شکستہ کے دانی کہ چیست
حال شیرانے کہ شمشیرِ بلا بر سر خورند
یہ تھی حقیقت واقعہ کی راست راست بے کم وکاست۔ خلاصہ سب کا یہ ہے کہ بحمد اللہ نہ صاحبِ واقعہ نے اور نہ احقر نے نہ کسی کفر کا ارتکاب کیا، نہ کسی معصیت کا، غایت مافی الباب بعض امور متعلقہ رائے میں رائے کا اختلاف محتمل ہوسکتا ہے جو کسی درجے میں بھی محلِ ملامت نہیں ہے، مگر پھر بھی صمیمِ قلب سے کہتا ہوں: ’’اللہم اغفر لي ما قدمت وما أخرت، وما أسررت وما أعلنت، وما علمت منہ وما لم أعلم، وما أنت أعلم بہ مني، وأفوض أمري إلی اللّٰہ إن اللّٰہ بصیر بالعباد‘‘۔
۱۳۔ متعلقہ صفحہ ۱۱: یہ مضمون ’’الامداد‘‘ شوال ۱۳۳۶ھ کا حوالہ ہے وہ ’’الامداد‘‘ مذکور کے صفحہ ۳ سے شروع ہوکر صفحہ ۶۶ پر ختم ہوا۔ جس میں فتوی سہارن پور، حضرت سہارن پوری کی طرف سے اور فتوی دیوبند، مفتی عزیزالرحمن صاحب