۱۳۰۱ھ جب کہ حضرت کی عمر بیس سال کی تھی علومِ ظاہریہ سے فراغت حاصل کی۔ حضرت حکیم الامت کی طالبِ علمی کے زمانے میں ان کی تائی صاحبہ نے فرمایا کہ بھائی! تم نے چھوٹے کو تو انگریزی پڑھائی ہے وہ تو خیر کما کھائے گا اور بڑا عربی پڑھ رہا ہے اس کی گزر اوقات کی کیا صورت ہوگی؟ کیوں کہ جائیداد وارثوں میں تقسیم ہوکر قابل گزارہ کے نہ رہے گی، یہ بات والد صاحب کو بہت ناگوار ہوئی اور باوجود اس کے کہ تائی صاحبہ کا بہت ادب کرتے تھے یہ سن کر جوش آگیا اور کہنے لگے کہ بھابی صاحبہ! یہ تم نے کیا کہا؟ خدا کی قسم! جس کو تم کمانے والا سمجھتی ہو ایسے ایسے اس کی جوتیوں سے لگے لگے پھریں گے اور یہ ان کی جانب رخ بھی نہ کرے گا۔ یہ مقولہ نقل کرکے حضرت حکیم الامت فرمایا کرتے تھے کہ اگر یہ بات کوئی درویش کہتا تو اس کی بڑی کرامت سمجھی جاتی، لیکن والد صاحب تو دنیا دار سمجھے جاتے تھے۔
دیوبندی دور کے اساتذہ کرام : ۱۔ حضرت اقدس نانوتوی ؒ، حضرت حکیم الامت نے ان سے کوئی سبق تو نہیں پڑھا، لیکن درسِ ’’جلالین‘‘ میں شرکت کیا کرتے تھے۔
۲۔ حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب مدرسِ اول جو حضرت حاجی صاحب کے اکابرِ خلفا میں شمار ہوتے تھے اور اسباق میں بھی علومِ ظاہریہ کے ساتھ علومِ باطنیہ سے بھی طلبا کو مستفید فرماتے تھے۔
۳۔ شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن صاحب مدرس چہارم جب کہ حضرت حکیم الامت ۱۲۹۵ھ میں دیوبند میں داخل ہوئے تو حضرت شیخ الہند کے پاس ’’مختصر المعانی‘‘ اور ’’ملاحسن‘‘ کے اسباق پڑھے۔ حضرت حکیم الامت نے اپنی تعلیم کی تفصیل ’’سبع سیارہ‘‘ میں لکھی ہے۔ ان دو کے علاوہ حضرت کے اساتذہ میں مولانا سید احمد صاحب مدرسِ دوم اور ملا محمود صاحب مدرسِ سوم اور مولانا عبدالعلی صاحب بھی تھے۔ ’’ذکرِ محمود‘‘ میں ہے کہ ابتدائے حاضری سے فراغ تک حضرت شیخ الہند ؒ کے پاس میرے اسباق رہے جن میں حمد اللہ علی میر زاہد، رسالہ میر زاہدعلی ملا جلال اور فقہ میں ہدایہ اخرین اور حدیث کی متعدد کتب پڑھیں جن کی تفصیل ’’سبع سیارہ‘‘ رسالہ میں ہے اور قراء ت کی مشق مکہ مکرمہ کی حاضری پر شیخ القراء قاری عبداللہ صاحب مہاجر مکی سے کی، ’’اشرف السوانح‘‘ میں تحریر ہے کہ جب مدرسہ صولتیہ کے بالائی حصہ پر قاری صاحب حضرت تھانوی کو مشق کراتے تو نیچے سے سننے والے کو بسا اوقات استاذ وشاگرد کی آواز میں اشتباہ ہوتا تھا۔ دارالعلوم سے فراغ پر آخر صفر ۱۳۰۱ھ میں مدرسہ فیضِ عام کان پور کی صدر مدرسی پر بمشاہرہ پچیس روپے تشریف لے گئے۔
حضرت حکیم الامت فرمایا کرتے تھے کہ تعلیم کے زمانے میں اپنے لیے زیادہ سے زیادہ دس روپے تنخواہ کافی سمجھا کرتا تھا،