عذر کردیا جس کی اصل وجہ تو غصہ تھا، مگر ظاہری عذر یہ کیا کہ سویرے بھوک نہیں لگتی اور دیر میں ریل نہ ملے گی اور مجھ کو کل وطن جانا ضروری ہے، مولانا نے سفارش فرمائی کہ دعوت میں شریک ہوجانا، اگر رغبت ہوئی کچھ کھالینا ورنہ اصرار نہ ہوگا۔ چناں چہ اگلے روز سب حضرات ان کے مکان پر پہنچنے اور کھانا لایا گیا، میں بھی بیٹھا رہا، مگر کھانے کی خواہش نہیں ہوئی، کچھ تو غصہ کے سبب، کچھ خلافِ معمول ہونے کے سبب، تھوڑی دیر میں اجازت لے کر مکان سے باہر آیا اور صاحبِ دعوت کو بھی فرمائش کرکے ہمراہ لایا اور باہر آکر ان کی اس نامعقول حرکت پر اچھی طرح کان کھولے اور توبہ کرائی۔
فائدہ: اس سے مولانا کا حلم ظاہر ہے اور حلم بھی اتنے درجہ کا کہ میں اس میں ساتھ نہیں دے سکا۔
جام نمبر ۱۸: احقر کو بعض امورِ اجتہادیہ ذوقیہ متعلقہ معاشرت وانتظام میں رائے کا اختلاف1 تھا اور اس اختلاف کے ہوتے ہوئے میرا یہ خیال تھا کہ مجھ کو مولانا سے صرف اعتقادِ عقلی ہوسکتا ہے انجذابِ طبعی نہ ہوگا، مگر کیفیت یہ تھی کہ حاضری تو حاضری تصور کرنے سے اس قدر انجذاب ہوتا تھا کہ میری سمجھ میں نہ آتا تھا اور غالباً اسی کا اثر ہوگا کہ خواب میں بھی اگر کبھی زیارت ہوتی تو اسی شان سے ہوتی، یہ کھلی دلیل ہے محبوبیت کی کہ محب کو گمان بھی نہیں بلکہ احتمال عدم کا ہے، مگر طبیعت ہے کہ کھنچی چلی جاتی ہے اور میں اس کو اللہ تعالیٰ کا فضل اور رحمت اپنے اوپر سمجھتا ہوں کہ اس اختلاف کے ضرر سے مجھ کو محفوظ رکھا۔
جام نمبر ۱۹: احقر نے جو عقدِ ثانی کیا اس کے دوران میں یا بعد میں (یاد نہیں رہا) بعض ثقات سے معلوم ہوا کہ مولانا ؒ کی نظر میں پہلے ہی سے اس کا استحسان تھا اور رائے بھی ظاہر فرمائی تھی، مگر غالباً یہ خیال تھا کہ احقر منکوحۂ اولی کے سبب اس کی ہمت نہ کرے، جب اس کا وقوع ہوگیا بہت مسرت ظاہر فرمائی اور میری اس درخواست کے جواب میں کہ ’’اللہ تعالیٰ سے دعا کیجیے کہ اس میں برکت فرماوے‘‘ یہ فرمایا کہ ہم کو تو برکات کی توقع ہے۔ (کما في إصلاح انقلاب)۔1