آپ کا آنا کس مصرف کا ہوا؟ اور اب وعظ نہیں ہوسکتا، وعظ کیا ہوا کھیل ہوا، یہ وہی بات ہوئی ’’پس ازاں کہ من نمانم بچہ کار خواہی آمد‘‘ اور وہ بات ہوئی ’’ہماری جان گئی آپ کی ادا ٹھیری‘‘۔ اس وقت مولانا یہ فرما رہے تھے کہ راہِ حق میں ایسی کلفت بھی کیسی لذت بخش ہے۔
فائدہ: مقصود اس قصہ کے نقل کرنے سے مولانا کا یہ قول نقل کرنا تھا جس سے مولانا کا مذاق {وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوْفِ وَانْہَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَاصْبِرْ عَلٰی مَآ اَصَابَکَ}1 کے اتباع کا کس قدر وضوح سے ثابت ہوتا ہے جس میں اپنی ہمت کو قاصر دیکھتا تھا آخر ضعیف وقوی اور ناقص وکامل میں فرق تو ہونا چاہیے، ولنعم ماقیل في مثل ہذا:
نہ ازو عشق را کنج سلامت
خوشا رسوائی کوئے ملامت
{وَفِیْ ذٰلِکَ فَلْیَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُوْنَO}۔2
جام نمبر ۱۵: ایک سفر میں مولانا کی معیت میں بسواری ریل بہاول پور سے واپسی ہو رہی تھی، اتفاق سے اس درجہ میں صرف میں اور مولانا ہی تھے اور رفقا دوسرے درجہ میں تھے، ظہر کا وقت تھا گرمی سخت تھی اور پسینہ کثرت سے نکل رہا تھا، مولانا غایتِ تواضع اور بے تکلفی سے پنکھا ہاتھ میں لے کر مجھ کو ہوا کرنے لگے، میں اس کا تحمل کب کرسکتا تھا پریشان ہوکر پنکھا پکڑ لیا فرمانے لگے: کیا حرج ہے؟ کوئی دیکھتا تھوڑا ہی ہے۔ یہ اس لیے فرمایا تھا کہ اس وقت درجہ میں کوئی تیسرا نہ تھا۔ میں نے عرض کیا کہ دیکھتا تو ہے۔ فرمایا: کون دیکھتا ہے؟ میں نے کہا کہ جس کے لیے میں آپ کا ادب کرتا ہوں وہ دیکھتا ہے، ہنسنے لگے اور پنکھا چھوڑ دیا۔
فائدہ: کیا انتہا ہے! اس بے نفسی کی کہ اپنے چھوٹوں کے ساتھ یہ برتاؤ اور اس سے بڑھ کر یہ کمال ہے کہ جب دیکھا کہ طبیعت پر گرانی ہے تو اپنے ارادہ پر اصرار نہیں فرمایا اور یہ کمال بڑھ کر اس لیے ہے کہ پہلے عمل میں تو اپنے رفیق کے جسم کی رعایت تھی اور دوسرے عمل میں قلب کی رعایت اور ثانی کا اول سے اکمل ہونا ظاہر ہے۔