فائدہ: اس سے بے تکلفی وسادگی ورعایتِ میزبان ظاہر ہے اور ان سب کا اخلاقِ فاضلہ سے ہونا ظاہر ہے۔
جام نمبر ۷: باوجود یہ کہ اس احقر کے ساتھ مساویانہ بلکہ اس سے بھی زیادہ تر برتاؤ فرماتے تھے جیسا کہ جام نمبر: ۱ میں مذکور ہوا، لیکن اظہارِ حق کا اس قدر غلبہ تھا کہ اگر میں نے استفادتاً کوئی بات پوچھی تو اس کے جواب میں کبھی تکلف نہیں فرمایا اور کبھی از خود بھی متنبہ فرمایا، چناں چہ اس وقت تین مسئلے اس قسم کے میرے ذہن میں حاضر ہیں:
1 میرا ایک دوست سے اس مسئلے میں اختلاف ہوا کہ پشت کی طرف سے فوٹو لینے میں جس میں چہرہ نہ آوے گنجائش ہے یا نہیں؟ جانبین سے مکاتبت کا سلسلہ چلتا رہا، آخر میں احقر نے اس دوست کو مولانا ؒ کے فیصلے پر راضی کرکے تحقیقِ مسئلہ کی درخواست کی، مولانا نے خوشی سے قبول فرماکر مسئلے کا فیصلہ کردیا، چناں چہ ہم دونوں نے قبول کرلیا۔ یہ محاکمہ1 تتمہ جلدِ رابع ’’فتاوی امدادیہ‘‘ کے آخر میں شائع ہوچکا ہے، اس محاکمہ کی تمہید میں مولانا ؒ کی عبارت قابلِ دید ہے وہي ہذہ: بندہ ناچیز باعتبار اپنے علم وفہم کے اس قابل نہیں کہ علمائے اعلام کے اختلاف کا فیصلہ کرسکے، مگر ہاں! امتثالاً للأمر الشریف اس مسئلہ میں جو کچھ خیال میں آیا عرض کرتا ہے إلخ
فائدہ: تواضع اور اظہارِ حق میں اس طرح جمع کرنا جس درجہ کا کمال ہے ظاہر ہے۔
2 مشتمل برسوالاتِ متعددہ، جزوِ اول: بعض روایات میں ابنِ عباس ؓ سے وارد ہے أخطأ الکاتب في ’’تستأنسوا‘‘ وإنما ہو ’’تستأذنوا‘‘۔ میں نے مولانا ؒ سے بذریعۂ خط پوچھا جس کا جواب نہایت2 قریب وعجیب ارشاد فرمایا جو ’’بیان القرآن‘‘ کے حواشیٔ عربیہ متعلقہ آیت {یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ ٰامَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتًا غَیْرَ بُیُوْتِکُمْ }۔3 الآیۃ میں شائع ہوا ہے۔ احقر نے اس خط کو مختصر اور معرب کردیا ہے، جس کا حاصل برتقدیرِ ثبوت ایسی قرأت کا قرأتِ موجودہ سے منسوخ ہونا اور راوی کو نسخ کی خبر نہ پہونچنا