نہایت مختصر تاریخی حالات لکھ دینے کا ہے، اسی لحاظ سے اس مختصر مضمون میں ’’خوانِ خلیل‘‘ کے مصنف حضرت اقدس حکیم الامت نور اللہ مرقدہ کے مختصر تاریخی حالت لکھنے کا ہے۔
یہ تو مشہور ہے کہ آپ کی پیدائش ایک صاحبِ خدمت مجذوب حافظ غلام مرتضیٰ پانی پتی کی دعا سے ہوئی، اس لیے کہ آپ کے والد صاحب نے مرضِ خارش سے تنگ آکر اطبا کے مشورے سے کوئی دوا قاطع النسل کھالی تھی جس کی وجہ سے اولاد کے پیدا ہونے کی کوئی امید نہ تھی۔ آپ کی نانی صاحبہ بہت پریشان تھیں، انھوں نے اپنی لڑکی (یعنی آپ کی والدہ ماجدہ) کے لیے دعا کرائی۔ ان مجذوب نے پیشین گوئی کی کہ اس لڑکی سے دو لڑکے پیدا ہوں گے، ایک میرا ہوگا جو مولوی، عالم، حافظ ہوگا، اس کا نام اشرف علی رکھنا اور دوسرا دنیا دار ہوگا، اس کا نام اکبر علی رکھنا۔ حضرت حکیم الامت فرمایا کرتے تھے کہ میں جو کسی وقت اکھڑی اکھڑی باتیں کرنے لگتا ہوں تو انھیں مجذوب صاحب کی روحانی توجہ کا اثر ہے، جن کی دعا سے میں پیدا ہوا ہوں، کیوں کہ طبیعت مجذوبوں کی طرح آزاد ہے۔
تاریخ ولادت : ۵؍ ربیع الآخر ۱۲۸۰ھ کو بدھ کے دن صبح صادق کے وقت آپ کی ولادت ہوئی۔ تاریخی نام کرم عظیم ہے۔ ددھیالی نام عبدالغنی تجویز ہوا اور ننھیالی اشرف علی، پھر اسی کو غلبہ ہوا۔
حضرت کا تعلیمی دور قرآن شریف سے ہوا، چند پارے آپ نے کھتولی ضلع مظفر نگر کے رہنے والے اخون جی سے پڑھے، پھر حافظ حسین علی صاحب سے جو دہلی کے رہنے والے تھے اور میرٹھ میں قیام تھا آپ نے دس سال کی عمر میں حفظ سے فراغت پالی تھی۔ فارسی کی تعلیم میرٹھ کے استاذوں سے حاصل کی اور پھر متوسطات تھانہ بھون میں حضرت مولانا فتح محمد صاحب سے پڑھیں، اور انتہائی کتب فارسی ابو الفضل تک اپنے ماموں واجد علی صاحب سے پڑھیں جو ادبِ فارسی کے استاذِ کامل تھے۔ اس کے بعد دیوبند تشریف لے گئے۔ عربی کی ابتدائی چند کتابیں مولانا فتح محمد صاحب تھانوی سے پڑھیں اور فارسی کی چند کتابیں ’’سکندر نامہ‘‘ وغیرہ بھی دیوبند میں مولوی منفعت علی صاحب سے پڑھیں، دیوبند کا داخلہ آخر ذی قعدہ ۱۲۹۵ھ میں ہے، وہاں جاکر حضرت نے نور الانوار، ملا حسن، مشکوٰۃ شریف، مختصر المعانی شروع کی اور پانچ سال تک مسلسل دارالعلوم میں تعلیم حاصل کی۔ لیکن دورانِ تعلیم میں حضرت کو خارش کا مرض لاحق ہوا۔ جب کہ حضرت کی عمر اٹھارہ برس کی تھی، چھٹی لے کر اپنے مکان تھانہ بھون تشریف لے گئے اور چوں کہ طلبِ علم کا زمانہ شروع ہوچکا تھا خالی رہنا مشکل تھا۔ اس لیے بطور مشغلہ کے مثنوی ’’زیر وبم‘‘ تصنیف فرمائی جس کا پہلا شعر جو اس کی تمہید ہے یہ ہے:
ہمی گوید گرفتار درد ونالہ
ناداں ہشتدہ سالہ