ہے انتھی۔ جزوِ ثانی: متعلقِ نبوت، جزوِ ثالث: متعلقِ رقومِ مدرسہ، جزو رابع: متعلقِ عدت، یہ سب اجزا بعینہا ’’فتاوی امدادیہ‘‘ جلد چہارم کے آخر میں بعنوان ’’بعضے از تحریرات إلخ‘‘1 شائع ہوئے ہیں۔
3 پیر محمد والی مسجد کی سمت جنوب میں جو سہ دری مسجد سے ملی ہوئی ہے اس پر سائبان ڈالا گیا تو مولانا نے اس کے متعلق از خود کچھ تحریر فرمایا جس کا یہاں سے جواب عرض کیا گیا۔ چند بار اس میں مکاتبت ہوئی جس میں کوئی اخیر فیصلہ نہیں ہوا۔ اس مکاتبت کا نام مسئلۃ أہل الخلۃ في مسئلۃ الظلۃ ہے، جو ’’ترجیح الراجح‘‘2 کے حصہ دوم کے اخیر کے قریب میں شائع ہوا ہے۔ اس میں مکتوب سوم کے شروع میں ایک عجیب دل ربا جملہ ہے وہي ہذہ: گرامی نامہ موجبِ برکت ہوا، کئی روز تک تو یہ خیال رہا کہ مسئلہ کے متعلق کچھ عرض کروں یا نہ کروں، مبادا تکرار موجبِ بار ہو بالآخر یہ خیال ہوا کہ اپنا خیال ایک دفعہ اور عرض کردوں إلخ
ملاحظہ فرمایا جاوے اس جملہ میں رعایتِ حق ورعایتِ خاطر دونوں کو کس طرح جمع فرمایا گیا ہے، اس کا اثر احقر پر یہ ہوا کہ اس پر جو عرض کیا گیا باوجود یہ کہ اس کا جواب نہیں آیا، مگر مجھ کو ایک تنبیہ میں اس کو لکھنے کی ضرورت ہوئی کہ اس کا جواب نہ آنے کو حجت نہ سمجھا جاوے إلی قولي: اس باب میں اہلِ علم سے مزید تحقیق کرلی جاوے۔
جام نمبر ۸: ایک بار بعض عنایت فرماؤں نے بعض حکایات کی نسبت میری طرف خلافِ واقع کردی جس کا چرچا اپنے مجمع میں پھیل گیا۔ میں اس وقت میرٹھ میں تھا اور اس چرچے سے بالکل غافل۔ مجھ کو خیر خواہ دل سوزنے یہ خبر پہنچائی، مجھ کو بہت رنج ہوا اور سب سے زیادہ خیال مجھ کو مولانا ؒ کے تکدر کا تھا، اس لیے میں نے اس واقعہ کی حقیقت مولانا کی خدمت میں لکھ بھیجی، وہاں سے حسبِ ذیل جواب آیا: معلوم نہیں لوگوں کو کیا مزا آتا ہے کہ غلط روایتیں پہنچا کر اہلِ خیر کے قلوب کو دکھاتے ہیں، مجھ ناچیز کو جو تعلق اور محبت پہلے تھا وہی عقیدت بحمداللہ موجود ہے:
آں نیست کہ حافظ را مہرت رود از خاطر
آں وعدۂ پیشینش تا روز پسیں باشد
جو قلبی محبت اور جس کو ذخیرۂ آخرت سمجھ رکھا ہو وہ ان شاء اللّٰہ تعالیٰ بدل نہیں سکتی جو روایتیں پہنچی ہیں ان میں مبالغہ سے بہت کام لیا گیا ہے، انتہی ملخصا بقدر الضرورۃ