جی چاہے اصل سے مراجعت کرلے۔ عنوان اس کا یہ ہے: ’’بعضے از تحریرات سیدنا ومولانا خلیل احمد صاحب دامت برکاتہم کہ درجواب سوالات صاحب فتاوی صدور یافتہ بمناسبت مقام درآخر ملحق کردہ شد‘‘۔ پہلا مسئلہ بعض قرء ات کے متعلق ہے، طویل مضمون ہے۔ اس کا خلاصہ جام: ۷ کے اندر آچکا ہے۔ اس کے بعد حضرت نے تحریر فرمایا کہ پہلی مکاتبت تو ختم ہوگئی، اب دوسری مکاتبت شروع ہوتی ہے۔
مخدومنا ومقتدانا حضرت مولانا خلیل احمد صاحب! دامت برکاتہم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
اتفاق سے ایک مبتدع کی کتاب میں بعض شبہات نظر سے متعلقہ بمعجزہ گزرے جن کے شافی کافی جواب کے لیے طبیعت جو یاں ہے اور اس غرض سے اس وقت تکلیف دیتا ہوں (معجزات کے متعلق اور جھوٹا دعوائے نبوت کرنے والے کے متعلق طویل مضمون ہے۔ اس کے بعد تحریر فرماتے ہیں) کہ دو مسئلے فروع میں سے قابلِ تحقیق ہیں: ایک یہ کہ مدرسہ میں جو روپیہ آتا ہے اگر یہ وقف ہے تو بقائے عین کے ساتھ انتفاع کہاں ہے؟ اور اگر یہ ملک معطی کا ہے تو اس کے مرجانے کے بعد واپسی ورثہ کی طرف واجب ہے۔
الجواب: عاجز کے نزدیک مدارس کا روپیہ وقف نہیں، مگر اہلِ مدرسہ مثل عمالِ بیت المال معطیین اور آخذین کی طرف سے وکلا ہیں، لہٰذا اس میں نہ زکوٰۃ واجب ہوگی اور نہ معطیین واپس لے سکتے ہیں۔
(مکرر سوال) حضرت مخدومنا! ادام اللّٰہ ظلال فیوضہم علینا
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
شفاء نامہ مزیلِ مرض ہوا، لیکن اساسِ شبہہ ہنوز قطع نہیں ہوئی (اس کے بعد پہلا نمبر تو معجزات کے متعلق ہے اور دوسرا نمبر یہ ہے) عمالِ بیت المال منصوب من السلطان ہیں اور سلطان کی ولایت عامہ ہے ا س لیے وہ سب کا وکیل بن سکتا ہے اور مقیس میں ولایت عامہ نہیں ہے اس لیے آخذین کا وکیل کیسے بنے گا؟ کیوں کہ نہ توکیل صریح ہے اور نہ دلالتاً ہے اور مقیس علیہ میں دلالتاً ہے کہ سب اس کے زیرِ طاعت ہیں اور وہ واجب الاطاعت ہے۔