{رَبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا}2 کا۔
جام نمبر ۱۴: ایک سفر میں مولانا کی معیت میں ایک ہم وطن دوست کی طلب پر جودھ پور جانا ہوا اور لوگوں کی درخواست پر احقر کے متعدد بیانات ہوئے، جن سے بفضلہ تعالیٰ بہت نفع ہوا اور اہلِ بدعت کے خیالات میں بھی ایک درجہ میں نرمی وحسنِ ظن پیدا ہوگیا۔ ہر بیان کے ختم پر آئندہ بیان کے لیے لوگوں کی درخواست پر وقت اور موقع کا اعلان کردیا جاتا تھا۔ ایک شب میں ختمِ وعظ پر ان دوست صاحب نے ایسے موقع کے لیے اعلان کردیا جہاں وعظ کی درخواست نہ تھی اور وہ محلہ تمام تر اہلِ فساد اور اہلِ عناد کا تھا، اپنے نزدیک انھوں نے یہ مصلحت سمجھی کہ صبح کو جمعہ تھا اور اس محلہ کی مسجد میں جمعہ بھی ہوتا تھا تو ان کو خیال یہ ہوا کہ اس طرح سے اہل محلہ کے کان میں حق پہنچ جائے گا، مگر اس میں خرابی یہ ہوگئی کہ اول تو اس محلہ کے اکثر لوگ سخت مبتدع ومتعصب تھے، پھر خصوصیت کے ساتھ ان کو ان دوست صاحب سے پہلے سے کچھ رنج بھی تھا، جس کا سبب جس طرح اہلِ محلہ کی کج فہمی تھی کسی قدر ان دوست صاحب کی تیز زبانی بھی تھی، ان لوگوں کو یہ اعلان نہایت ناگوار ہوا اور وہ یوںسمجھے کہ انھوں نے ہم کو زک دینے کے لیے یہ کارروائی کی ہے اور تہیہ کرلیا کہ وعظ نہ ہونے دیں گے۔
ان دوست صاحب کو بھی قرائن سے اس کا خطرہ ضرور تھا انھوں نے یہ انتظام کیا کہ مجسٹریٹ صاحب کو جو کہ گلاؤ ٹھی کے رہنے والے اور خوش عقیدہ شخص تھے ایک درخواست دے دی کہ عین موقع پر پولیس کا انتظام کردیا جائے، تاکہ کوئی فتنہ وفساد نہ ہو، چناں چہ درخواست منظور ہوکر ایک سب انسپکٹر مع چند جوانوں کے حاضر رہنے کے لیے مامور ہوگئے، ہم لوگوں کو اس کی اطلاع عین اس وقت ہوئی جب کہ جمعہ میں جانے کی تیاری کررہے تھے۔ میں نے اپنی طبیعت اور مذاق کے موافق یہ رائے قا ئم کی کہ ایسی تشویش کی جگہ جانا نہ چاہیے، اور تہیہ وعظ کا دل سے نکال دیا اور اس رائے کو مجمع میں ظاہر کردیا۔ ان دوست صاحب نے تو یہ جواب دیا کہ سب لغو روایتیں ہیں اور یہ راوی جنھوں نے یہ حکایت کی تھی بزدل اور کم ہمت ہیں، یہ ہر جگہ یوں ہی ڈر جاتے ہیں ضرور چلنا چاہیے اور مولانا نے فرمایا کہ اگر ایسا ہو بھی تب بھی تبلیغِ حق میں ایسے امور کی پروا نہ کرنا چاہیے۔
ان دوست کی رائے کی تو مجھ کو کچھ وقعت نہیں ہوئی، کیوں کہ اس کا منشا میرے خیال میں دنیا تھی، مگر مولانا کے ارشاد پر میں خاموش ہوگیا گو میری رائے اب بھی وہی تھی کہ جانا مناسب نہیں، مگر دو وجہ سے موافقت کرلی، ایک: اس وجہ سے کہ منشا اس رائے کا دین ہے گو وہ امرِ اجتہادی ہے جس میں موافقت واجب نہیں مگر ناجائز بھی نہیں، دوسرے: اس وجہ