وہذا آخر ما أردت إیرادہ في ہذا الحین، نفع اللّٰہ بہ الطالبین ورزقناحبہ وحب نبیّہ وحب الصالحین، فقط۔
أوائل ذی قعدہ ۱۳۴۶ مقام تھانہ بھون۔
ضمیمہ خوانِ خلیل
بعد الحمد الصلاۃ۔
۱۔ متعلقہ صفحہ ۵: (ترجمہ) مولانا عارف جامی نے حضرت یوسف ؑ کے خریداروں کے بارے میں نقل فرمایا ہے (ترجمۂ اشعار) جب حضرت یوسف ؑ کے حسن کی گرم بازاری ہوئی تو سب اہلِ مصران کے خریدار بن گئے۔ جس مال پر جو شخص جتنی قدرت رکھتا تھا اس بازار میں ان کی خریداری کی ہوس رکھتا تھا۔ میں نے سنا کہ ان کے غم سے ایک بڑھیا بہت پریشان سوت کے چند دھاگے لے کر کہہ رہی تھی کہ اگر میرے پاس پونجی کھوٹی ہے تو میرے لیے یہی کافی ہے کہ ان کے خریداروں کی قطار میں میرا شمار ہو جائے۔
اسی مخلص بڑھیا کی تقلیدان سطور کی تحریر میں احقر نے اختیار کی ہے کہ ایک حبرِہمام اور بحرِ قمقام یعنی (ترجمہ اشعارِ عربی) حضرت مولانا خلیل احمد جوکہ حق تعالیٰ شانہ کی محبت کے لباس سے آراستہ ہیں اور حضرت ابراہیم علی نبینا ؑ کے ہم نام اور اپنے زمانہ کے یوسف جن کا چہرۂ انور روشنی میں قلبِ مبارک کے مانند ہے، جن کی وفات ربیع الثانی ۱۳۴۶ھ میں ہے، اللہ تعالیٰ ان کے فیوض وبرکات سے دور اور نزدیک سب لوگوں کو مستفیض فرمائے کہ دریائے کمالات میں سے (آگے ترجمہ کی حاجت نہیں)۔
۲۔ متعلقہ صفحہ ۶: ’’یاد یاراں‘‘ حضرت قطب الارشاد شیخ المشائخ حضرت اقدس مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی کے وصال پر تصنیف فرمایا تھا اور ’’ذکرِ محمود‘‘ حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن صاحب ؒ کے وصال پر لکھا تھا اور دونوں رسالے اسی وقت مستقل طبع بھی ہوگئے تھے۔
۳۔ متعلقہ صفحہ ۶: حضرت نور اللہ مرقدہ ۱۳۱۵ھ میں کان پور سے ملازمت چھوڑ کر اپنے وطن مستقل طور پر خانقاہ امدادیہ