مکاتبت میں حضرت تھانوی کا رجوع اور حضرت گنگوہی کا اس پر تشکر ہے جو بہت طویل خط وکتابت ہے جو ’’تذکرۃ الرشید‘‘ میں دیکھی جاسکتی ہے۔
لیکن اس ناکارہ زکریا کے خیال میں ۱۱ھ میں مکہ مکرمہ سے واپسی پر اعلیٰ حضرت نے جو دو وصیتیں فرمائی تھیں: میاں اشرف علی! ہندوستان پہنچ کر تم کو ایک حالت پیش آئے گی عجلت نہ کرنا۔ اور کبھی کان پور کے تعلق سے دل برداشتہ ہو تو پھر دوسری جگہ تعلق نہ کرنا (اشرف السوانح: ۲۰۷) توکل بخدا تھانہ بھون جاکر بیٹھ جانا۔ اس سفرِ حج سے واپسی کے بعد سے حضرت کا تبتل کا میلان تو بڑھتا ہی گیا۔ حضرت تھانوی کا خود ارشاد ہے کہ حضرت حاجی صاحب کی خدمت سے واپسی کے بعد ایک سال کے قریب میں نے وعظ نہیں کہا، لوگ بہت اصرار کرتے تھے، مگر مجھے سخت تکلیف ہوتی تھی کہ ایسے خراب شخص سے کیوں وعظ کے لیے کہتے ہیں۔ ایک مرتبہ بہت اصرار کیا تو میں رونے لگا، اس کے بعد اصرار نہیں ہوا۔ (حسن العزیز، جلد اول ملفوظ: ۳۰۶ صفحہ: ۱۶۶)
اس دوران میں حضرت گنگوہی ؒ سے ترکِ ملازمت کی دو مرتبہ اجازت بھی چاہی جو مجھے ’’تذکرۃ الرشید‘‘ میں یاد ہے، مگر حضرت گنگوہی نے دونوں مرتبہ اجازت نہیں فرمائی اور تیسری مرتبہ حضرت تھانوی نے ترکِ ملازمت کے بعد یہ لکھا کہ حضرت مجھ سے تحمل نہیں ہوا میں چھوڑ کر چلا آیا تو حضرت گنگوہی ؒ نے بہت دعائیں دیں۔ میرے والد صاحب حضرت مولانا محمد یحییٰ صاحب کاتبِ خطوط نے پہلے دو خطوں پر بھی بہت سفارش کی کہ اللہ کا نام ایک شخص تو کلا علی اللّٰہ بلا معاوضہ سکھانے کا ارادہ کرتا ہے تو حضرت کیوں منع فرماتے ہیں؟ حضرت نے فرمایا کہ جو میں کہتا ہوں لکھ دو اور تیسرے جب حضرت گنگوہی ؒ نے بہت دعائیں دیں تو میرے والد صاحب نے پھر عرض کیا کہ پہلے دو خطوں میں تو حضرت نے یہ لکھوایا تھا اور اب اظہارِ مسرت کیا؟ تو حضرت نے فرمایا کہ آدمی مشورہ جب کیا کرتا ہے جب تردد ہو۔ اور جب تک تردد ہو توکل ٹھیک نہیں۔ یہ قصہ میں نے بڑی تفصیل سے اپنے والد صاحب سے بھی سنا تھا اور ’’تذکرۃ الرشید‘‘ میں بھی یاد ہے، مگر اس وقت مراجعت دشوار ہے۔
بہرحال! حضرت حکیم الامت اوائل ۱۳۱۵ھ میں کان پور سے ترکِ ملازمت کرکے تھانہ بھون تشریف لائے جس کی تفصیل ’’اشرف السوانح‘‘ صفحہ: ۲۲۹ پر ہے۔ تھانہ بھون تشریف آوری کے بعد حضرت حکیم الامت نور اللہ مرقدہ پر کچھ قرضہ ہوا، جس کی دعا کے لیے اعلیٰ حضرت کو مکہ مکرمہ اور قطب الارشاد کو گنگوہ لکھا۔ اعلیٰ حضرت حاجی صاحب کا جواب تو یہ آیا کہ آپ کی استقامت اور توکل میں کامیابی کی دعا کرتا ہوں۔ (مختصر مکتوب ۳۷، ۶؍ رجب ۱۳۱۵ھ) اور حضرت گنگوہی ؒ نے تحریر فرمایا کہ اگر کہو تو مدرسہ دیوبند میں تمہارے لیے مدرسی کی تحریک کروں؟ اس پر حضرت تھانوی نے عرض کیا کہ میرا تو عرض کرنے کا مقصد صرف دعا ہے، باقی حضرت حاجی صاحب نے بعد ترکِ تعلق کان پور