۱۹۰ تک ۸ صفحے میں ہے، جس کی تمہید میں حضرت حکیم الامت نے لکھا ہے: مسئلۃ أہل الخلۃ في مسئلۃ الظلۃ۔
بعد الحمد والصلاۃ
اس احقر نے مسجد پیر محمد والی کی چارسہ دریوں کے سامنے ٹین کا سائبان ڈلوایا تھا، ان میں ایک سہ دری کے سائبان کے متعلق بعض اہلِ علم سے بطور تحقیق خط وکتابت ہوئی، اس کو اس غرض سے نقل کرتا ہوں کہ اہلِ علم سے اس باب میں مزید تحقیق کرلی جاوے اور میرے قول وفعل کو حجت نہ سمجھا جاوے، میں نے اپنی فہم کے موافق کہا ہے اور کیاہے، وسمیتہا بما سمیتہا إشارۃ إلی الاسم السمی نواث1 الکا برنخبۃ الأکبر۔
(مکتوب اول آں بزرگ)
مکرم محترم سیدی ادام اللّٰہ تعالی فیوضکم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،
ایک2 اور مضمون کے بعد آپ کی سہ دری کے سائبان کے متعلق مجھ کو خلجان ہے، میں اس کو ناجائز سمجھ رہا ہوں اورآپ جائز۔ مولوی … کی تقریر کچھ فہم میں نہیں آئی اس لیے مکلف خدمت ہوں کہ مفصل کیفیت اس کی تحریر فرماویں کہ وہ جنوبی سہ دری داخلِ مسجد ہے یا خارجِ مسجد اور مسجد کے ساتھ اس کی تعمیر ہے یا بعد میں تعمیر کی گئی یا اس کا کوئی حصہ داخلِ مسجد ہے، بعد تفصیلی علم کے اگر خلجان رہا تو عرض کروں گا۔ (پھر ایک اور مضمون ہے) والسلام ۳۰؍ شوال ۱۳۳۱ھ (معروضِ احقر بجواب مکتوب اول)۔ (میرے پاس جو کاغذ ہے اس میں القاب وآداب نقل نہیں ہوئے۔ انتھی) مولوی سے جو مضمون ذکر کیا گیا تھا وہ مطول تھا اس لیے بوجہ عدمِ انضباط کے ادا نہیں کرسکے، ملخص اس کا یہ ہے کہ یہ دیوار جس پر سائبان رکھا گیا ہے جزو مسجد ہے اور سائبان بھی بقصد مصلحتِ مسجد ڈالا گیا ہے، إلخ۔
مکتوب دوم بجواب معروض بالا
مکرم ومحترم دامت برکاتہم، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ (بعد ایک مضمون کے) سائبان مسجد کے متعلق جناب نے دو مقدمے تحریر فرمائے إلخ۔ معروضِ احقر بجواب مکتوب دوم (بعد القاب وآداب کے) دیوار کو جو میں نے جزوِ مسجد لکھا تھا وہ اس بنا پر کہ وہ فرشِ مسجد پر بنی ہوئی ہے، جیسا کہ حدودِ متقابلہ کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے گو بعد میں بنائی گئی۔ چناں چہ ایک بار میں نے حضرت گنگوہی ؒ کی خدمت میں بھی یہی شبہہ پیش کیا تھا إلخ۔
مکتوب سوم بجواب معروض مذکور