باطل کا ایہام ہو، دوسرے: وہ اہلِ باطل کی طرف انتسابِ حق کا ایہام ہو۔ سو اول قسم کے مواقع میں تو وقفِ لازم کلی ہے اور دوسرے قسم کے مواقع میں وقفِ لازم اکثری ہے۔ علمائے وقف نے ایسے مواقع پر اس کا زیادہ اہتمام والتزام نہیں کیا، جس کا مبنی یہ سمجھ میں آتا ہے کہ اہلِ حق سے تو صدور باطل کا منکر شرعی ہے تو اس ایہام کا دفع زیادہ مہتم بالشان ہے، اور اہلِ باطل سے صدور حق کا منکر شرعی نہیں ’’لأن الکذوب قد یصدق‘‘ بلکہ یہ صدور خود قرآن میں منقول ہے، جہاں منافقین کا ذکر ہے، چناں چہ دوسرے قسم کے بعض مواقع کا ذکر کرتا ہوں جس سے میرا دعوی اکثریت کا ثابت ہوتا ہے: سورۂ منافقون کی اول آیت میں منافقین کا قول: {نَشْہَدُ اِنَّکَ لَرَسُوْلُ اﷲِ}1 منقول ہے اور یہاں علما نے وقف لازم کیا ہے، تاکہ اس کے بعد کا قول: واللہ یعلم إلخ کی نسبت ان کی طرف متوہم نہ ہو تو یہاں توایہام کا اعتبار کیا گیا اور اسی سورت میں رکوع اول کے ختم کے قریب منافقین کا قول {لَا تُنْفِقُوْا عَلَی مَنْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ حَتّٰی یَنْفَضُّوْا}2 منقول ہے اور اس کے متصل ہی اس کا رد {وَلِلّٰہِ خَزَآئِنُ السَّمٰوٰتِ}إلخ منقول ہے جو حق تعالیٰ کا قول ہے، مگر ینفضوا پر وقف لازم نہیں تو یہاں اس ایہام کا اعتبار نہیں کیا گیا، اسی طرح اسی کے بعد ان کا دوسرا قول منقول ہے {لئِنْ رَّجَعْنَا اِلَی الْمَدِیْنَۃِ لَیُخْرِجَنَّ الْاَعَزُّ مِنْہَا الْاَذَلَّ}3 اور اس کے متصل ہی اس کا رد وَلِلّٰہِ الْعِزَّۃُ إلخ منقول ہے جو حق تعالیٰ کا قول ہے، مگر الْاَذَلَّ پر وقف لازم نہیں تو یہاں بھی اس ایہام کا اعتبار نہیں کیا گیا۔ پس ثابت ہوا کہ ایہامِ ثانی کا اعتبار اکثری ہے کلی نہیں، سو اسی بنا پر وَلَدًا پر وقف لازم نہ ہونے کو بھی مبنی کرسکتے ہیں، وَاللّٰہ أَعْلَمُ
واقعہ نمبر ۳: ایک شخص نے مولانا ؒ کے روبرو ایک حکایت بیان کی کہ ایک شخص مرگیا تھا تھوڑی دیر میں وہ زندہ ہوگیا اور اسی نام کا ایک دوسرا شخص اسی وقت مرگیا اور پہلے مرنے والے نے بیان کیا کہ مجھ کو ایک مقام پر لے گئے، وہاں پیشی کے وقت کہا گیا کہ اس شخص کو نہیں بلایا گیا، بلکہ دوسرے شخص کو بلایا گیا ہے، چناں چہ مجھ کو دنیا میں لوٹا دیا اور دوسرے کو دنیا سے بلایا گیا۔ یہ حکایت بیان کرکے پوچھا کہ کیا ایسا ممکن ہے؟
بعض اوقات کسی دوسری طرف توجہ ہونے سے بعض پہلوؤں پر نظر نہیں جاتی، کچھ نرم سا جواب فرما دیا۔ میں نے ادب سے عرض کیا کہ یہ تو ممکن نہیں معلوم ہوتا، اگر ملک الموت کو ایسی غلطی ہوسکتی ہے تو ملک الوحی سے بھی ہوسکے گی، پس کسی غالی کے اس قول کی صحت کی گنجائش نکل آوے گی: جبریل غلط کردہ مقصود علی بود۔ اور اس حکایت کی توجیہ صحیح اور سہل یہ ہے کہ وہ مریض مبرسم یا مسکوت تھا اور اس میں اس کا متخیلہ فاسد ہوگیا تھا، مولانا ؒ یہ سن کر بہت خوش ہوئے اور نہایت انبساط کی ساتھ اس کی تصویب فرمائی۔