کا خوب خیال رکھنا چاہیے۔ (مکتوباتِ امدادیہ صفحہ: ۳، مورخہ ۱۲؍ ربیع الثانی ۱۳۰۶ھ)
طالبِ علمی کے آخری دور میں دیوبند کے قیام میں ایک مرتبہ حضرت گنگوہی ؒ کی دیوبند تشریف بری پر بیعت کی درخواست کی تھی، لیکن حضرت قطبِ عالم نے یہ کہہ کر کہ ’’طالبِ علمی کے زمانے میں شغلِ باطن مخل تحصیلِ علم ہوگا‘‘ انکار فرما دیا تھا جس کو حضرت تھانوی نے دفع الوقتی پر حمل فرمایا جس کی تفصیل ’’یادِ یاراں‘‘ میں مذکور ہے، لیکن اسی زمانہ میں ایک دوسرے طالب علم کو حضرت نے بیعت فرمالیا جس سے حضرت تھانوی کو بہت قلق ہوا۔ اور ۱۲۹۹ھ میں حضرت قطب الارشاد گنگوہی ؒ تیسرے سفرِ حج کے لیے تشریف لے گئے تو حضرت تھانوی نے حضرت گنگوہی ؒ کے ہاتھ ہی دستی خط حضرت شیخ المشائخ مہاجر مکی کی خدمت میں لکھا کہ میں نے مولانا سے درخواست بیعت کی تھی مولانا نے انکار کردیا۔ جناب سفارش فرما دیں۔ اور اعلیٰ حضرت کی حضرت قطب عالم سے جو گفتگو ہوئی وہ تو معلوم نہیں، لیکن حضرت تھانوی کے خط کا جو جواب حضرت شیخ المشائخ نے مرحمت فرمایا تھا اس میں بجائے سفارش کرنے کے خود ہی خط سے بیعت فرمالیا۔
اور اس سے بہت قبل حضرت حاجی صاحب نور اللہ مرقدہ نے حضرت حکیم الامت کے والد کو ایک خط لکھا تھا کہ جب تم حج کو آؤ تو اپنے بڑے لڑکے کو ساتھ لے کر آنا، حالاں کہ حضرت شیخ العرب والعجم کو اس وقت حضرت تھانوی سے کوئی خصوصی تعارف بھی نہ تھا، خط سے بیعت کے بعد من جانب اللہ حاضری کی صورت بھی پیدا ہوئی، وہ یہ کہ اس زمانے میں دیوبند میں کوئی کمپنی قائم ہوئی تھی۔ جس میں فی حصہ پانچ سو روپے کا تھا اور ایک شخص کو ایک حصے سے زائد لینے کا حق نہ تھا۔ مگر حضرت تھانوی کے والد صاحب نے اپنے تمول کی وجہ سے تین حصے اس طرح لیے: ایک اپنے نام سے، دوسرا حضرت تھانوی کے نام سے اور تیسرا حضرت کے چھوٹے بھائی منشی اکبر علی کے نام سے اور کچھ عرصہ بعد بعض وجوہ سے اس رقم کو واپس لے لیا۔ اس پر حضرت تھانوی نے اپنے والد صاحب کو لکھا کہ جو حصہ آپ نے میرے نام سے جمع کیا تھا اور اب واپس لے لیا وہ میری ملک ہے یا آپ کی؟ اس پر والد صاحب نے جواب دیا کہ اب تک تو میری ملک تھی اور مصلحتاً تمہارا نام لکھا تھا لیکن اب تمہاری ملک ہے۔ اس پر حضرت تھانوی نے لکھا: اب تو اس رقم کی زکاۃ بھی مجھ پر واجب ہے اور اس کی وجہ سے مجھ پر حج بھی فرض ہوگیا۔ والد صاحب نے زکاۃ کی رقم تو نقد بھیج دی اور حج کے متعلق لکھاکہ میں تمہاری چھوٹی بہن یعنی والدہ ماجدہ حضرت مولانا ظفر احمد صاحب تھانوی (شیخ الاسلام پاکستان) کے نکاح سے فارغ ہو جاؤں تو آیندہ سال حج کے لیے جاؤں گا، اس وقت تم بھی ساتھ چلنا۔
حضرت تھانوی نے لکھا: (اگرچہ والد کا ادب بھی بہت کرتے تھے اور ڈرتے بھی بہت تھے) آپ مجھے یہ لکھ دیجیے کہ تو