الٰہی! کیسی کیسی صورتیں تو نے بنائی ہیں
کہ ہر اک دست بوسی کیا قدم بوسی کے قابل ہے
یہی ہیں جن کے سونے کو فضیلت ہے عبادت پر
ان ہی کے اتقا پر ناز کرتی ہے مسلمانی
انھیں کی شان کو زیبا نبوت کی وراثت ہے
انھیں کا کام ہے دینی مراسم کی نگہبانی
رہیں دنیا میں اور دنیا سے بالکل بے تعلق ہوں
پھریں دریا میں اور ہرگز نہ کپڑوں کو لگے پانی
اگر خلوت میں بیٹھے ہوں تو جلوت کا مزہ آئے
اور آئیں اپنی جلوت میں تو ساکت ہو سخن دانی
لیکن اس کے باوجود گلدستے کے پھولوں کی طرح سے ہر ایک کی بو الگ، نظافت، ولطافت الگ، اور گلدستہ جب ہی کامل ومکمل ہوسکتا ہے جب کہ اس میں مختلف رنگوں کے اور مختلف خوشبوؤں اور اداؤں کے پھول ہوں:
گلہائے رنگا رنگ سے ہے زینتِ چمن
اے ذوق! اس جہاں کو ہے زیب اختلاف سے
میرے جملہ اکابر کی سوانح عمریاں مختصر ومفصل بہت سی لکھی گئیں ہیں، جن میں ان کے علمی کمالات، عملی ریاضات، معارف وعلوم وحکمت پر مختصر مفصل سب ہی کچھ لکھا گیا، لیکن ان سب کا احاطہ نہ ہوسکتا ہے اور نہ مجھ جیسے ناقص العلم والفہم کے ادراک میں آسکتے ہیں، مگر میرا جی یہ چاہا کرتا ہے کہ ان اکابر کے تاریخی حالات نہایت اجمالی طور پر ضرور دوستوں کو مستحضر رہیں، اس سے دَور اور زمانے کا علم تو ہوتا رہے۔ اسی لیے میں نے اپنے اکابر کا حال جس تذکرہ میں عربی میں یا اردو میں لکھا بہت مختصر لکھا۔ چوں کہ ’’خوانِ خلیل‘‘ حضرت حکیم الامت ؒ کی تالیف ہے اور حضرت حکیم الامت کی سوانح عمریاں مختصر ومطول ہند وپاک میں بہت سی لکھی جاچکی ہیں اور گو کمالاتِ علمیہ اور عملیہ تو ان میں بھی نہ آئے، ان میں ’’اشرف السوانح‘‘ (مؤلفہ محبي ومخلصي جناب الحاج خواجہ عزیز الحسن) بہت ہی مکمل اور قابلِ اعتماد ہے کہ خود حضرت حکیم الامت کے زمانۂ حیات میں لکھی گئی اور خود حضرت کی نظرِ ثانی دو حصوں پر ہوئی، اس کے بعد جتنی لکھی گئیں وہ سب اسی سے ماخوذ اور ان کا چربہ ہیں جو مختلف اہلِ ذوق نے اپنے ذوق کے موافق لکھی ہیں، میرا ذوق، جیسا کہ میں نے اوپر لکھا،