اس نوابی کے زمانے میں ریاست کے سارے کاروبار سے نمٹنے کے بعد اپنے والد کے جو ایک کسان تھے اور سارا لباس ان کا گجروں جیسا ہوتا تھا ان کے پاؤں سارے عملہ اور سارے خدام کے سامنے دبایا کرتے تھے، اور جب ان اطراف میں آتے تو ان اکابر کے سامنے ایسا دو زانوں بیٹھتے جیسا کوئی بہت ادنی خادم ہو، ان کے محاسن کے واسطے تو بڑا دفتر چاہیے۔
ایک مرتبہ ان کی طلب پر حضرت اقدس سہارن پوری، حضرت شیخ الہند اور حضرت حکیم الامت تینوں ساتھ ہی بھاول پور تشریف لے گئے اور ساتھ ہی واپس تشریف لائے، واپسی پر انھوں نے ہرسہ حضرات کی خدمت میں علی التساوی ایک گراں قدر ہدیہ پیش کیا، شیخین نے تو قبول کرلیا اور حضرت حکیم الامت نور اللہ مرقدہ نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ مجھے چوں کہ اشرافِ نفس ہوگیا تھا اس لیے قبول سے معذوری ہے اور ان دونوں حضرات کو نہیں ہوا ہوگا۔ مولانا رحیم بخش صاحب نے وہ رقم فوراً لے کر اپنی جیب میں رکھ لی اور اشارتاً بھی کوئی لفظ اس کے قبول کرنے کے متعلق نہیں کہا، یہ سب حضرات ان سے رخصت ہوکر ریل میں سوار ہوگئے۔ مولانا رحیم بخش صاحب نے اپنے ایک ملازم کے ذریعے حضرت حکیم الامت کی رقم ایک لفافہ میں بند کرکے بھیجی اور اس میں ایک پرچہ لکھا کہ حضرت والا نے اشراف نفس کے احتمال سے یہ ناچیز ہدیہ واپس فرما دیا تھا، اور اس خاک سار کو حضرت اقدس کی منشا کے خلاف مکرر درخواست کی جرأت نہیں ہوئی، لیکن اب تو حضرت واپس جاچکے اور اشراف کا کوئی احتمال بھی نہیں رہا اس لیے امید ہے کہ اس ناچیز ہدیہ کو قبول فرمالیں گے اور اگر اب بھی کوئی گرانی ہو تو حضرت کی طبع مبارک کے خلاف ذرا اصرار نہیں۔ اس مضمون کا پرچہ لفافہ میں بند کرکے اس نوکر سے کہا کہ جب ۷، ۸ اسٹیشن گزر جائیں تو فلاں جنکشن پر یہ بند لفافہ حضرت کی خدمت میں پیش کردینا اور پوچھ لینا، حضرت اگر کچھ جواب دیں تو لیتے آنا، ورنہ چلے آنا۔ چناں چہ حسبِ ہدایت ملازم نے چند اسٹیشن جاکر وہ لفافہ پیش کیا اور حضرت نے پڑھا اور بہت ہی اظہارِ مسرت کیا اور فرمایا کہ محبت خود طریقے سکھلا دیتی ہے۔
مجھے تو اس قصہ پر ہمیشہ ایک مصرع یاد آتا ہے کہ ’’محبت تجھ کو آدابِ محبت خود سکھا دے گی‘‘ بہرحال حضرت نے قبول فرماکر تحریر فرمایا کہ خدا تعالیٰ آپ کے فہم وذکا میں ترقی عطا فرمائے، واقعی اب مجھے کوئی عذر نہیں۔ مولانا سر رحیم بخش صاحب کا اصل وطن ٹھسکہ میرانجی ضلع کرنال تھا۔ نواب صاحب کے بلوغ پر جب وہ خود بااختیار ہوگئے تو یہ بھاول پور سے پنشنر ہوکر اپنے وطن ٹھسکہ تشریف لے آئے تھے۔ اور صرف ۱۹ گھنٹے بیمار رہ کر بوقت ۴ بجے صبح شنبہ ۳۰؍ محرم ۵۴ھ مطابق ۴؍ مئی ۳۵ء بعمر ۷۶ سال عیسوی رحلت فرما گئے، إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون أللہم اغفرلہ۔ ۴ھ میں ذی الحجہ کے پورے مہینے گنگوہ قطب عالم کی خدمت میں رہے اور بیعت سے مشرف ہوئے اور واپسی پر حافظ علیم الدین گنگوہی کو جو اس وقت بچے تھے اپنے ساتھ ملازم بناکر لے گئے۔ حافظ صاحب مرحوم بھی مولانا کے نہایت ہی وفا دار خادم، حضر وسفر