مرتبہ لیٹے تو ایک صاحب تخلیہ کا وقت دیکھ کر آبیٹھے اور دیر تک ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے اور حضرت حاجی صاحب ؒ پر نیند کا غلبہ، آنکھیں بند ہوتی تھیں۔ لیکن ان کی دل داری میں کچھ نہ فرمایا، دوسرے دن پھر ایسا ہی ہوا کہ حضرت بیٹھے ان سے باتیں کرتے رہے۔ یہ صاحب یہ سمجھ کر آئے تھے کہ تخلیہ کا وقت ہے تنہائی میں خوب توجہ ہوگی تو حضرت حافظ محمد ضامن صاحب نے اپنی جگہ سے للکار کر ان صاحب سے کہا کہ خود تو رات بھر بیوی کو بغل میں لیے پڑے سوتے رہتے ہو اور یہ بے چارے رات بھر اللہ کے ذکر میں مشغول رہتے ہیں، دوپہر کو تھوڑا سا وقت لیٹنے کو ملتا ہے تو تم لغویات میں وقت ضائع کردیتے ہو، اگر اب سے اس وقت آئے تو ٹانگیں توڑ دوں گا۔ حافظ صاحب بہت تیز مزاج تھے، کبھی حضرت حاجی صاحب کو بھی اور کبھی مولانا شیخ محمد صاحب کو بھی سنا دیتے تھے:
ہرگلے را رنگ وبوئے دیگر است
اسی طرح حضرت اقدس گنگوہی ؒ اور حضرت اقدس نانوتوی ؒ کے مزاج میں بھی طبعی اختلاف تھا کہ حضرت نانوتوی کے یہاں دل داری کا مضمون بہت بڑھا ہوا تھا۔ حضرت تھانوی نے اپنے ایک ملفوظ ’’حسن العزیز‘‘ جلد اول: ۴۹۵ میں یہ فرماتے ہیں کہ حضرت مولانا محمد قاسم صاحب کے پاس کوئی بیٹھا ہوا ہوتا تو اشراق اور چاشت بھی قضا کردیتے تھے۔ مولانا رشید احمد صاحب کی اور شان تھی، کوئی بیٹھا ہو جب وقت اشراق یا چاشت کا آیا وضو کرکے وہیں نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہوگئے، یہ بھی نہیں کہ کچھ کہہ کر اٹھیں کہ میں نماز پڑھ لوں یا اٹھنے کی اجازت لیں۔ جہاں کھانے کا وقت آیا لکڑی لی اور چل دیئے۔ چاہے کوئی نواب ہی کا بچہ بیٹھا ہو۔ وہاں یہ شان تھی جیسے بادشاہوں کی شان۔
مولانا محمد قاسم صاحب اور مولانا رشید احمد صاحب جب حج کو چلے تو بمبیٔ میں مولانا محمد قاسم صاحب تو لوگوں میں ملتے پھرتے اور مولانا گنگوہی انتظام میں مشغول رہتے۔ جب مولانا محمد قاسم صاحب واپس آتے تو مولانا گنگوہی فرماتے کہ کچھ فکر بھی ہے کہ کیا انتظام کرنا ہے؟ آپ ملتے جلتے ہی پھرتے ہیں۔ مولانا فرماتے کہ مجھے فکر کی کیا ضرورت ہے جب آپ بڑے سر پر موجود ہیں۔ پھر فرمایا کہ ایک بار مولانا محمد قاسم صاحب مولانا گنگوہی سے فرمانے لگے کہ ایک بات پر بڑا رشک آتا ہے آپ کی نظر فقہ پر بہت اچھی ہے، ہماری نظر ایسی نہیں، بولے کہ جی ہاں! ہمیں کچھ جزئیات یاد ہوگئیں تو آپ کو رشک ہونے لگا۔ آپ مجتہد بنے بیٹھے ہیں ہم نے کبھی آپ پر رشک نہیں کیا۔ ایسی ایسی باتیں ہوا کرتی تھیں، وہ انھیں اپنے سے بڑا سمجھتے تھے اور وہ انھیں۔
اس ملفوظ میں حضرت تھانوی نے حضرت گنگوہی کے اور بھی کئی واقعات بیان فرمائے ہیں اس کے ساتھ یہ بھی فرمایا کہ ایک مرتبہ نانوتہ میں مولانا مظفر حسین صاحب تشریف لائے، وہاں حضرت مولانا رشید احمد صاحب ومولانا محمد یعقوب