ہوئی اور ۵؍ جمادی الاولی ۲۹ھ کو تقریب صحتِ ختنہ ہوئی‘‘۔ ان کے والد حضرت مولانا الحاج احمد صاحب ؒ جن کے متعلق حضرت حکیم الامت نے ’’ذکرِ محمود‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’کوئی رسم کیوں کر ہوتی جب کہ صاحبِ تقریب خود ایک عالم بدعت سے مانع تھے‘‘ حضرت قطب عالم گنگوہی ؒ کے حدیث پاک کے شاگرد تھے، اسی کے متعلق عزیزی مولوی عامر نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ ’’۱۴؍ شوال ۱۳۰۳ھ کو دادا مرحوم بغرض تحصیلِ علمِ حدیث گنگوہ حضرت گنگوہی کی خدمت میں تشریف لے گئے اور تعلیمی سال کے بعد ۱۷؍ شعبان ۱۳۰۴ھ بعد تکمیلِ صحاح ستہ فارغ ہوئے، فقط۔ حضرت الحاج حافظ محمد ضامن صاحب تھانوی شہید ؒ کے اجل خلیفہ جناب الحاج حکیم ضیاء الدین صاحب رام پوری کے بھتیجے تھے جس کی وجہ سے حضرت گنگوہی کے یہاں بھی خاص منظورِ نظر تھے اور اس کی وجہ سے حضرت گنگوہی کے اجل خلفا سب ہی سے خصوصی تعلق تھا، اخیر تک دارالعلوم دیوبند کے ممبر اور مدرسہ مظاہر علوم کے سرپرست رہے، حضرت شیخ الہند ؒ کی مشہور تحریک ریشمی خطوط کے خاص راز داروں اور مشیروں میں سے تھے۔
شوال ۱۳۳۳ھ میں جب حضرت شیخ الہند وحضرت اقدس سہارن پوری نور اللہ مرقدہما حجاز تشریف لے گئے جس کی تفاصیل حضرت شیخ الہند وحضرت سہارن پوری کی سوانحوں میں مذکور ہے، روانگی سے قبل مظاہر علوم کے کتب خانہ میں تقریباً ایک ہفتہ تک حضرت شیخ الہند وحضرت سہارن پور،ی اعلیٰ حضرت رائے پوری شاہ عبدالرحیم صاحب اور یہی مولانا احمد صاحب مسلسل مشوروں میں شریک رہے۔ صبح کو اشراق کے بعد چائے سے فراغ پر یہ چاروں کتب خانہ میں تشریف لے جاتے اور اندر کی زنجیر لگالیتے اور بارہ بجے کے قریب جب حضرت سہارن پوری ؒ کے کارکن حاجی مقبول احمد صاحب بار بار تقاضہ کرتے کہ کھانا ٹھنڈا ہوگیا تو دیر تک تو جواب ہی نہ ملتا اور پھر بہت دیر کے بعد مولانا احمد صاحب کہتے کہ آرہے ہیں آرہے ہیں اور ظہر کی اذان کے قریب یہ حضرات اترتے اور جلدی جلدی ٹھنڈا گرم کھانا نوش فرماتے اور پھر ظہر کی نماز کے بعد اوپر تشریف لے جاتے اور عصر کی اذان کے قریب اترتے۔
جیسا کہ میں ’’آپ بیتی‘‘ ۴ کے صفحہ: ۲۸ پر اس واقعہ کو ذکر کرچکا ہوں، مولانا حکیم احمد صاحب ہمارے اکابر کے یہاں بڑے مدبر ذی رائے سمجھے جاتے تھے، اہم مشوروں میں ان کی شرکت ضروری سمجھی جاتی تھی، اس لیے دونوں مدرسوں کے ہمیشہ اہلِ شوری میں داخل رہے۔ بڑے متقی تھے اور میرے چوں کہ نانیہال کی طرف سے رشتہ دار بھی تھے، اس لیے مجھ پر شفقت بھی بہت فرمایا کرتے تھے۔ ایک دفعہ مجھ سے میری ابتدائی مدرسی کے زمانے میں فرمانے لگے کہ مولوی زکریا! تمہارے ان مدرسوں سے کچھ آتا جاتا ہو اس کو تو تم جانوں، ہم تو ایک بات جانیں کہ باپ داداؤں سے یہ سنتے آئے تھے کہ فلاں چیز نہیں کھانی، یہ نہیں کھانا، وہ نہیں کھانا، تمہارے مدرسوں میں پڑھ کر یہ چیز جاتی رہتی ہے۔ جو