منازل سلوک |
ہم نوٹ : |
|
اہل اللہ کی قدر طالبِ خدا کو ہوتی ہے ایک بات اور عرض کردوں کہ ایک شخص ایک گاؤں میں گیا۔ اس نے پوچھا کہ اس گاؤں میں ہلدی ہے؟ لوگوں نے کہا کہ ہاں ہے۔ کہا یہاں ہلدی کا کیا بھاؤ ہے؟ تو ایک بڈھے نے پوربی زبان میں کہا کہ ہلدی کا کوئی بھاؤ نہیں ہوتا، جتنا چوٹ پرائے یعنی جتنا چوٹ میں درد ہوتا ہے اتنا ہی ہلدی کا بھاؤ ہوتا ہے، درد زیادہ ہو تو ہلدی مہنگی، درد نہ ہو تو ہلدی کی کیا قدر ہے۔ ایسے ہی اللہ والے اللہ کی محبت کی چوٹ رکھنے والے دلوں کے لیے مثل ہلدی کے ہیں، لیکن چوٹ بھی تو ہو، جس کے چوٹ ہی نہیں لگی، جس کو اللہ کی طلب ہی نہیں ہے وہ ظالم کیا جانے کہ اللہ والے کیا ہیں۔جس کے قلب میں جتنی زیادہ اللہ کی محبت، طلب اور پیاس ہوتی ہے اتنی ہی اہل اللہ کی قدر ہوتی ہے۔ منزل کی محبت راہ بر کی محبت کے لیے مستلزم ہے اور منزل کی محبت جتنی کمزور ہوگی راہ بر کی محبت بھی اتنی ہی کمزور ہوگی۔ جو عاشق منزل ہے وہ عاشقِ راہ بر بھی ہوتا ہے اور جو منزل کا عاشق نہیں وہ راہ بر کا عاشق بھی نہیں ہوتا، کہتا ہے کہ وہ بھی آدمی ہیں اور ہم بھی آدمی ہیں، ان کے بھی ایک ناک اور دو کان ہیں، ہمارے بھی ایک ناک اور دو کان ہیں۔ بیک بینی و دو گوش،یہ بھی بیٹھے ہیں اور ہم بھی۔ حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ جسے اللہ والے سے جتنا زیادہ حسن ظن ہوتا ہے اتنا ہی زیادہ اللہ کا فضل اس پر مرتب ہوتا ہے، اور کسی اللہ والے کو صرف اپنی نظر سے مت پہچانو، وقت کے اولیاء اللہ اور تربیت یافتہ علمائے دین کی نظر سے پوچھو کہ ان کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ کیوں کہ ہماری نظر کیا ہے بیمار کی نظر ہے۔ زندگی کا ویزا غرض جلدی جلدی تیاری کرلیجیے۔ دوستو! آج کل ایمرجنسی ویزے آرہے ہیں، زندگی کی قدر کرلیجیے۔ دیکھیے! مکہ شریف میں مولانا سعدی چائے پی رہے تھے، بالکل جوان، سب بال کالے کہ چائے کی پیالی ہاتھ سے گری اور ختم۔ زیادہ لمبے چوڑے منصوبے مت بنائیے کہ ابھی تو بہت عمر پڑی ہے، ذرا دنیا بنالوں پھر آخرت کا دیکھا جائے گا۔ دوستو! یہ سب