منازل سلوک |
ہم نوٹ : |
|
جن کی چشم بصیرت بے نور ہے وہ تو یہی سمجھتے ہیں کہ میرے بھی ایک ناک ہے،اس اللہ والے کے بھی ایک ناک ہے، دو آنکھیں میری ہیں دو ان کی ہیں، ہم بھی آدمی ہیں وہ بھی آدمی ہیں ؎ہمسری با انبیاء برداشتند اولیاء را ہمچو خود پنداشتند بصیرت کے اسی اندھے پن سے بدقسمت لوگوں نے انبیاء کی برابری کا دعویٰ کیا اور اولیاء کو اپنا جیسا سمجھا ؎اشقیاء را دیدۂ بینا نبود نیک و بد در دیدہ شاں یکساں نمود بدبخت لوگوں کو دیدۂ بینا نہیں دیا جاتا، انہیں تو نیک وبد ایک جیسے نظر آتے ہیں، خوش قسمت لوگ پہچاننے والے پیدا ہوتے ہیں جو اللہ والوں کو پہچان لیتے ہیں۔ اہل طلب کی شان مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ سے جب شمس الدین تبریزی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ میں کچھ نہیں ہوں تو فرمایا کہ آپ لاکھ زبان سے کہیے کہ میں کچھ نہیں ہوں لیکن مجھ سے اپنے آپ کو آپ نہیں چھپاسکتے۔ پھر یہ شعر مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ نے شمس الدین تبریزی رحمۃ اللہ علیہ کی شان میں پڑھا ؎بوئے مے را گر کسے مکنوں کند چشم مست خویشتن را چوں کند اگر شراب پی کر کوئی اس کی بُو کو الائچی اور پان کھاکر چھپادے لیکن ظالم اپنی مست آنکھوں کو کہاں سے چھپائے گا۔ اللہ تعالیٰ جس کو اپنی محبت کی شراب راتوں کی تنہائیوں میں پلادیتے ہیں وہ دن میں اپنی آنکھوں کو کہاں چھپاسکتا ہے؟ فرمایا کہ آپ کی آنکھیں بتاتی ہیں کہ آپ صاحبِ نسبت ہیں۔ جب مجنوں اپنی لیلیٰ کی قبر کی مٹی سونگھ کر بتاسکتا ہے کہ یہاں لیلیٰ ہے جبکہ اس کو علم بھی نہیں تھا کہ لیلیٰ کو کہاں دفن کیا گیا ہے؟ اس سے خاندان والوں نے چھپایا تھا کہ