منازل سلوک |
ہم نوٹ : |
|
حفاظتِ نظر سے حلاوتِ ایمانی ملتی ہے اس غم کے بدلے میں اللہ تعالیٰ نے بزبانِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم حلاوتِ ایمانی کا وعدہ کیا ہے کہ ہم تمہیں ایمان کی مٹھاس دیں گے اِنَّ النَّظْرَ سَہْمٌ مِّنْ سِہَامِ اِبْلِیْسَ مَسْمُوْمٌ مَّنْ تَرَکَہَا مَخَافَتِیْ اَبْدَلْتُہٗ اِیْمَانًا یَّجِدُ حَلَاوَتَہٗ فِیْ قَلْبِہٖ 7؎ تم بصیرت کی حلاوت کے لیے اپنی بصارت کی ناجائز مٹھاس کو قربان کردو۔ علامہ ابنِ قیم جوزی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جس نے اپنی آنکھوں کو حسینوں سے بچایا تو گویا بصارت کی حلاوت اس نے اللہ پر فدا کی، اس کے بدلے میں بصیرت یعنی قلب کی حلاوت اللہ تعالیٰ اس کو دیتا ہے اور کیوں کہ اللہ تعالیٰ باقی ہیں تو ان کی حلاوت بھی باقی ہوگی۔ اس کے برعکس حسینوں کو دیکھنے سے دل تڑپتا ہی رہتا ہے۔ ایک عالم نے حضرت حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کو لکھا کہ حضرت مجھے نگاہ ڈالنے کی طاقت تو ہے لیکن نگاہ ہٹانے کی طاقت ہی نہیں رہتی۔ حضرت نے جواب دیا کہ آپ پڑھ لکھ کر اور خصوصاً فلسفہ پڑھ کر ایسی بات کرتے ہیں کیوں کہ قدرت تو ضدین سے متعلق ہوتی ہے یعنی جو کام کرسکے اس کو نہ بھی کرسکے، یہ قدرت کہلاتی ہے۔ اگر کسی کو رعشہ ہے، ہر وقت اس کا ہاتھ ہل رہا ہے تو یہ نہیں کہاجائے گا کہ اس کو ہاتھ ہلانے کی قدرت ہے کیوں کہ روک نہیں سکتا،یہ ہاتھ ہلانے کی طاقت نہیں کہی جائے گی بلکہ بیماری کہی جائے گی۔ ہاتھ ہلانے کی طاقت و قدرت یہ ہے کہ ہاتھ کو ہلا بھی سکے اور نہ بھی ہلاسکے، جب چاہے روک لے۔ لہٰذا جب آپ کو نظر ڈالنے کی طاقت ہے تو معلوم ہوا کہ ہٹانے کی بھی طاقت ہے، جب نظر ڈال سکتے ہو تو ہٹا بھی سکتے ہو۔ پھر انہوں نے دوسرا خط لکھا کہ جب نظر بچاتا ہوں تو دل پر بڑی چوٹ لگتی ہے، حسرت وغم پیدا ہوتا ہے کہ ہائے نہ معلوم اس کی کیسی شکل ہوگی؟ اس میں کیا کیا حسن کے نکتے ہوں گے، نہ جانے کیسی آنکھیں ہوں گی، کیسی ناک ہوگی، نہ دیکھنے سے دل پر ایک زخم لگتا ہے۔ حضرت حکیم الامت نے ان سے ایک سوال کیا کہ یہ بتائیے کہ نہ دیکھنے سے دل کو کتنی دیر تک پریشانی رہتی ہے اور دیکھنے کے بعد کتنی دیر تک _____________________________________________ 7؎کنزالعمال:328/5،(13068)، الفرع فی مقدمات الزنا و الخلوۃ بالاجنبیۃ، مؤسسۃ الرسالۃ-المستدرک للحاکم: 349/4 (7875)