منازل سلوک |
ہم نوٹ : |
|
تھوڑا سا لرزہ ریکارڈ ہوتا ہے اور گھر میں چھپ کر جابیٹھتا ہے اور نوکر سے کہہ دیتا ہے کہ کہہ دینا سیٹھ صاحب اس وقت نہیں ہیں۔ اس لیے جہاں تک ہوسکے علماء کو اچھا لباس پہننا چاہیے، جتنی اللہ نے حیثیت دی ہے، تاکہ مال داروں کو یہ محسوس نہ ہو کہ یہ لوگپھٹیچرہیں، اگر چہ ٹیچر ہیں اور آئے بروز سنیچر ہیں۔ خیر یہ تو قافیہ بازی ہے جس سے اللہ کلام کو لذیذ کردیتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ آج کل اللہ والے ذرا عمدہ لباس کیوں پہنتے ہیں خصوصاً کہیں سفر کرتے ہیں تو اچھا لباس پہن لیتے ہیں،ان کی نیت کو تو دیکھو۔ شیطان کا حربہ جس نے بدگمانی کی وہ محروم رہا،شیطان کا یہ بہت بڑا حربہ ہے، وہ سوچتا ہے کہ اگر کہیں یہ کسی اللہ والے کا معتقد ہوگیا تو یہ بھی اللہ والا صاحبِ نسبت ہوجائے گا۔ لہٰذا بزرگوں کو حقیر دکھاتا ہے کہ وہ پہلے جیسے بزرگ اب کہاں۔ آج کل کے تو یوں ہی ہیں بس نام کے۔ لیکن جسم جب ذرا بیمار ہوتا ہے تو کیا آپ حکیم اجمل خان کا انتظار کرتے ہیں کہ دہلی کے قبرستان سے اُٹھ کر آئیں،معمولی حکیموں سے علاج کرانا میری توہین ہے، یا جو قریبی حکیم ہوتا ہے اسی کو دکھاتے ہیں کہ جلدی سے جان بچاؤ۔چوں کہ جان پیاری ہے اس لیے جو حکیم ملتا ہے اسی سے رجوع کرتے ہیں۔ اسی طرح جس کو ایمان پیارا ہوجاتا ہے وہ کسی اللہ والے کو تلاش کرلیتا ہے۔ شیخ اوّل کے انتقال کے بعد دوسرے شیخ سے تعلق ضروری ہے ایسے ہی شیخ کے انتقال کے بعد باجماع صوفیاواولیاء دوسرا شیخ تلاش کرنا بھی واجب ہے۔ حکیم الامت نے مثنوی مولانا روم کی شرح میں فرمایا کہ ایک آدمی کنویں میں گرے ہوئے ڈولوں کو اپنے ڈول سے نکال رہا ہے، کھینچنے والا اپنے ڈول میں رسی باندھ کر کنویں میں ڈالتا ہے اور گرے ہوئے ڈولوں کو اپنے ڈول میں پھنساکر باہر کھینچ لیتا ہے کہ اس کا انتقال ہوگیا۔ اب اس کا ڈول کنویں میں گرے ہوئے ڈولوں کو نہیں نکال سکتا، چاہے گرے ہوئے ڈول اس سے کتنا چپٹے رہیں، ان کو نکالنے کے لیے دوسرا زندہ آدمی آئے اور وہ اپنا ڈول ڈالے تب نکل سکیں گے۔ شیخ کے انتقال کے بعد لاکھ اس کی قبر پر مراقبہ کرتے رہو اصلاح نہیں