منازل سلوک |
ہم نوٹ : |
|
بھلا ان کا منہ تھا مرے منہ کو آتے یہ دُشمن ان ہی کے اُبھارے ہوئے ہیں دنیا میں جو تکلیف بھی پہنچتی ہے سب میں ہماری تربیت اور ہمارا نفع ہے۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کے تکوینی راز ہیں، لہٰذا جس کی نظر اللہ پر ہوتی ہے وہ کہتا ہے کہ جاؤ میاں! معاف کیا، مجھے اپنے اللہ کو یاد کرنا ہے، تمہارے چکر میں کیوں رہوں۔ اس کو معاف کیا اور دل کو اللہ کے ساتھ لگادیا۔ دل کو اللہ کے لیے خالی کرلیا حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ خانقاہ تھانہ بھون سے گھر تشریف لے جارہے تھے۔ مفتی شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ بھی ساتھ تھے۔ حضرت نے جیب سے کاغذ نکالا، پینسل سے کچھ لکھا اور جیب میں رکھ لیا اور پوچھا کہ مفتی صاحب بتاؤ! میں نے کیا کیا؟ عرض کیا کہ حضرت آپ نے کاغذ نکالا، پینسل نکالی اور کچھ لکھ کر جیب میں رکھ لیا اور مجھے کچھ نہیں معلوم کہ کیا کیا۔ فرمایا کہ ایک کام یاد آگیا تھا، بار بار وسوسہ آرہا تھا کہ کہیں بھول نہ جاؤں، کہیں بھول نہ جاؤں، دل اس میں مشغول ہوگیا تھا، میں نے اپنے دل کا بوجھ کاغذ پر رکھ کر دل کو پھر اللہ کے لیے خالی کرلیا۔ یہ ہیں اللہ والے جو دل کو اللہ کے سوا کسی چیز میں مشغول نہیں ہونے دیتے اور مخلوق کی خطاؤں کو معاف کرکے اپنے اللہ کے ساتھ مشغول ہوجاتے ہیں۔ البتہ ایسے لوگوں سے خوبصورتی کے ساتھ الگ ہوجاتے ہیں کہ نہ ان سے انتقام لیتے ہیں اور نہ ان کی شکایت و غیبت کرتے ہیں۔ جس کو اللہ سے تعلق ہوتا ہے اس کو اتنی فرصت کہاں کہ مخلوق میں اُلجھا رہے، وہ تو زیادہ سے زیادہ یہ دعا پڑھ لے گا جو حدیثِ پاک میں ہے کہ اَللّٰہُمَّ اجْعَلْ ثَاْرَنَا عَلٰی مَنْ ظَلَمَنَا ۔20؎ اے اللہ! میری طرف سے آپ انتقام لیجیے جنہوں نے مجھ پر ظلم کیا۔ وہ تو اپنے معاملات کو اللہ کے حوالے کردے گا۔ جیسے چھوٹا بچہ اپنے ابا سے کہہ دیتا ہے کہ ابا فلانے نے ہم کو طمانچہ مارا ہے، اس کے بعد اس کو فکر بھی نہیں ہوتی کہ ابا کیا کریں گے۔ اسے اعتماد ہوتا ہے کہ ابا اپنی شفقت و محبت کی وجہ سے ضرو ر _____________________________________________ 20؎جامع الترمذی:188/2،باب من ابواب جامع الدعوات،ایج ایم سعید