منازل سلوک |
ہم نوٹ : |
|
علیہ مجنوں کا واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ لیلیٰ کی گلی کے کتے کو دیکھ کر مجنوں نے کہا ؎ایں طلسمے بستہ مولیٰ ست من پاسبان کوچۂ لیلیٰ ست من ارے دیکھو تو سہی میری لیلیٰ کی گلی کا پاسبان،یہ کتا کتنا پیارا ہے!ارے یہ تو ایک جادو ہے میرے مولیٰ کا بنایا ہوا ؎آں سگے کو گشت در کویش مقیم جو کتا میری لیلیٰ کی گلی میں مقیم ہے ؎خاک پایش بہ ز شیرانِ عظیم اس کے پاؤں کی خاک بڑے بڑے شیروں سے بہتر ہے ؎آں سگے کو باشد اندر کوئے او لیلیٰ کی گلی میں جو کتا رہتا ہے ؎من بہ شیراں کے د ہم یک موئے او میں شیروں کو اس کا ایک بال بھی نہیں دے سکتا ؎اے کہ شیراں مرسگانش را غلام اے دنیا والو! بہت سے شیر محبوب کے کتے کے غلام بن چکے ہیں ؎گفتن امکاں نیست خامش والسلام مگر آپ ہماری یہ باتیں نہیں سمجھ سکتے اس لیے نہ سمجھنے والوں کو بس میں سلام کرتا ہوں۔ مولانا کا مطلب یہ ہے کہ نسبت بہت بڑی چیز ہے، حرم کا اگر ایک کتا بھی آجائے تو اس کی قدر کرو، سوچو کہ کہاں سے آیا ہے۔ ان قصوں سے مولانا رومی کا مقصد لیلیٰ مجنوں نہیں ہے، ان کا مقصد اللہ ورسول کی محبت کے آداب سکھانا ہے۔ مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کی شانِ محبت جس وقت تھانہ بھون سے سڑک پر جھاڑو لگانے والا ایک ہندو بھنگی نانوتہ گیا تو مولانا