منازل سلوک |
ہم نوٹ : |
|
بے حیائی سے بچنے کا واحد راستہ لہٰذا یقین کیجیے کہ اللہ نے جو حلال کی بیوی دی ہے اس سے بڑھ کر دنیا میں کوئی حسین نہیں۔ کس دستِ کرم سے عطا ہوئی ہے اس نسبت کا خیال رکھیے۔ ری یونین کی سڑکوں پر پھرتی ہوئی ننگی عورتوں سے بچنے کا واحد راستہ یہی ہے کہ یہ دھیان دل میں جم جائے، اللہ تعالیٰ سے نسبت قائم ہوجائے، نگاہ بدل لیجیے، آسمان پر دیکھیے کہ مجھے جو ملی ہے اللہ نے عطا فرمائی ہے۔ مرضی مولیٰ ازہمہ اولیٰ۔ اس قناعت پر اللہ تعالیٰ کتنے خوش ہوں گے۔ اگر آپ کی بیٹی کم حسین ہو اور مزاج کی بھی تیز ہو اور داماد زیادہ حسین ہو تو آپ کیا چاہیں گے کہ داماد اس کی پٹائی کرے اور مارمار کر اس کو ٹیڑھا کردے؟ یا یہ چاہیں گے کہ اس کو آرام سے رکھے۔ اگر وہ اخلاق سے پیش آتا ہے اور آپ کی بیٹی کی تلخیوں کو برداشت کرتا ہے اور اس کے حسن کی کمی کی بھی شکایت نہیں کرتا تو آپ کیا چاہیں گے کہ اس داماد کو کیا ہدیہ پیش کردوں، کون سی جائیداد اس کے نام لکھ دوں اور کہیں گے کہ یہ تو ولی اللہ ہے اور آپ کے دل میں سب سے زیادہ وہ محبوب ہوگا۔ اللہ تعالیٰ بھی ایسے لوگوں کو اپنا ولی بنالیتے ہیں، جو اپنی بیویوں کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آتے ہیں۔ جس زمین والے نے اپنی بیوی کی تلخ مزاجی،بداخلاقی یا حسن کی کمی کو برداشت کیا اور اچھے اخلاق سے پیش آیا تو اس آسمان والے نے اس کو اتنا نوازا کہ رشکِ آسمان اس کو قرب عطا فرمایا۔ بیوی سے حسن سلوک کی بدولت ولایتِ علیا کا حصول حضرت شاہ ابوالحسن خرقانی رحمۃ اللہ علیہ کی بیوی بڑی تلخ مزاج تھی۔ ایک شخص خراسان سے شاہ صاحب سے بیعت ہونے کے لیے آیا اور گھر میں پوچھا کہ حضرت کہاں ہیں؟ بیوی نے وہ سنائیں کہ کیا حضرت حضرت کرتا ہے، رات دن تو میں ان کے ساتھ رہتی ہوں، وہ تو بڑے ’’حضرت‘‘ہیں۔ محاورہ میں کہتے ہیں کہ ان سے ذرا ہوشیار رہنا یہ بڑے حضرت ہیں یعنی چکرباز ہیں۔ وہ بے چارہ رونے لگا۔ محلہ والوں سے کہا کہ ہزاروں میل چل کر آیا ہوں اور بیوی بتارہی ہے کہ وہ بزرگ ہی نہیں ہیں۔ تو لوگوں نے کہا کہ بے وقوف! بیوی کی سند مت لے، بیوی شاید ہی کسی کو سند دے، جا جنگل میں جاکر ان کی کرامت دیکھ۔ جنگل گیا تو دیکھا کہ شیر پر بیٹھ کر چلے آرہے ہیں۔ حضرت شاہ ابوالحسن خرقانی رحمۃ اللہ علیہ سمجھ گئے کہ یہ گھر سے