منازل سلوک |
ہم نوٹ : |
|
انہیں جب اچھا معلوم ہوتا ہے جب پہلے اللہ کا نام لے لیتے ہیں، اللہ تعالیٰ کی فرماں برداری کے بعد ان کو دنیاوی نعمت میں لذت ملتی ہے اور کوئی نعمت انہیں نعمت نہیں معلوم ہوتی مگر جب اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرلیتے ہیں۔ شیخ محی الدین ابو زکریا نووی رحمۃ اللہ علیہ نے شرح مسلم میں اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے ایک دوسری روایت نقل کی ہے کہ مُفَرِّدُوْنَ کے معنیٰ ہیں کہ جو حالتِ ذکر میں وجد میں آجائیں اَلَّذِیْنَ اھْتَزُّوْا فِیْ ذِکْرِ اللہِ اہتزاز کے کیا معنیٰ ہیں؟ جب بارش ہوتی ہے تو زمین پھولتی ہے، حرکت میں آجاتی ہے، تو معنیٰ یہ ہوئے کہ یہ وہ لوگ ہیں کہ اللہ کے نام سے ان میں حرکت پیدا ہوجاتی ہے، جھوم جاتے ہیں اَیْ لَہِجُوْا بِہٖ 10؎ یعنی خدا پر عاشق ہوجاتے ہیں۔ میں جب ہردوئی گیا تو حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب دامت برکاتہم کی خدمت میں بہت مزہ آیا،اللہ والوں کی معیت بہت پُرکیف ہوتی ہے۔ میں نے حضرت والا سے عرض کیا کہ حضرت کی خدمت میں بہت مزہ آرہا ہے کیوں کہ اس چوکھٹ سے بڑھ کر کس کا دروازہ ہوسکتا ہے جس سے اللہ مل جائے اور اپنا ایک شعر عرض کیا ؎مزہ دل میں آئے تو بس جھوم جائے اور اس آستاں کی زمیں چوم جائے تو حضرتِ والا نے فرمایا کہ مگر جلدی نہ گھوم جائے۔ شیخ کی صحبت میں معتدبہ مدت رہنا چاہیے یعنی شیخ کے پاس سے جلدی نہ بھاگنا چاہیے کیوں کہ ایک رنگ ریز سے ایک آدمی نے کہا کہ میری چادر رنگ دو تو اس نے کہا کہ رنگنے کے لیے بہتّر گھنٹے چاہییں۔ کہا کہ نہیں ہماری تو کل شام کو ریل ہے،تم ہمیں کل دے دو۔ رنگ ریز نے کہا کہ کل میں دے تو دوں گا لیکن ضمانت نہیں دے سکتا کہ اس کا رنگ پکا رہے گا۔ اسی طرح جو لوگ قبل از وقت شیخ کی صحبت سے بھاگ جاتے ہیں ان کا رنگ بھی کچا رہتا ہے، دوسرے ماحول سے متأثر ہوجاتے ہیں _____________________________________________ 10؎شرح مسلم للنووی: 17/4، باب الحث علٰی ذکراللہ تعالٰی، داراحیاءالتراث، بیروت