منازل سلوک |
ہم نوٹ : |
|
ذکر مت کرنا، عاشقانہ ذکر کرنا کہ میں تمہارا پالنے والا ہوں جس طرح اپنے ماں باپ کا محبت سے نام لیتے ہو، ماں باپ کا نام لے کر تمہاری آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں، کیا تمہارا اصلی پالنے والا میں نہیں ہوں؟ ماں باپ تو متولی تھے،تمہارا اصلی پالنے والا تو میں ہوں، ربّ العالمین ہوں، اس تربیت کی نسبت سے میرا نام محبت سے لینا۔ تبتل و یکسوئی کا ثبوت آگے فرماتے ہیں وَ تَبَتَّلۡ اِلَیۡہِ تَبۡتِیۡلًا اور غیراللہ سے کٹ کر اللہ سے جڑ جاؤ یعنی اللہ کی طرف متوجہ رہو۔ غیراللہ سے کٹنے اور کنارہ کش ہونے کا کیا مطلب ہے؟ کیا مخلوق کو چھوڑ کر جنگل میں نکل جاؤ؟ ہر گز نہیں! مطلب یہ ہے کہ قلب کے اعتبار سے مخلوق سے کٹ جاؤ۔ جسم بستی میں رہے اور مخلوقِ خدا کے ساتھ ہو لیکن دل اللہ کے ساتھ ہو، رہبانیت حرام ہے۔ ایک تبتل شرعی ہے، ایک غیرشرعی ہے۔ تبتل غیرشرعی جو گیوں اور سادھوؤں کا ہے، ہندوستان کے پنڈتوں اور ہندوؤں کا ہے کہ بیوی بچوں کو چھوڑ کر جنگل میں نکل گئے، بدن پر راکھ مل لی اور درخت کے نیچے آنکھ بند کرکے بیٹھ گئے۔ اور تبتل شرعی مسلمانوں کا ہے، اولیاء اللہ کا ہے۔ وہ کیا ہے کہ تعلقاتِ دنیویہ پر علاقۂ خداوندی غالب ہوجائے، دنیاوی تعلقات پر اللہ تعالیٰ کا تعلق اور اللہ کی محبت غالب ہوجائے۔ اس حقیقت کو جگر مرادآبادی نے یوں تعبیر کیا ہے ؎میرا کمالِ عشق بس اتنا ہے اے جگرؔ وہ مجھ پہ چھاگئے میں زمانے پہ چھا گیا حصولِ تبتل کا طریقہ ان آیات کی تقدیم و تاخیر سے حکیم الامت مجدد الملت حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ تصوف کا ایک مسئلہ بیان فرماتے ہیں کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ بیٹی کی شادی ہوجائے، مکان بنالوں، تھوڑا سا کاروبار جمالوں، ذرا دنیوی فکروں سے چھوٹ جاؤں پھر میں اللہ والوں کے پاس جاؤں گا، اللہ کی یاد میں لگ جاؤں گا اور بالکل صوفی بن جاؤں گا۔ حضرت فرماتے ہیں