منازل سلوک |
ہم نوٹ : |
|
جس شخص کا کوئی عضو بھی گناہ میں مبتلا ہے، کان سے گانا سننے کا عادی ہے، آنکھ سے حسینوں کو دیکھنے کا عادی ہے، زبان سے غیبت کا عادی ہے، ہاتھ سے حسینوں کے گال چھونے کا عادی ہے، اگر کسی قسم کے گناہ کی عادت ہے تو یہ شخص اطمینان کامل نہیں پاسکتا۔ دلیل کیاہے؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: اَلَا بِذِکۡرِ اللہِ تَطۡمَئِنُّ الۡقُلُوۡبُ 15؎ذکر اللہ سے حصولِ اطمینانِ قلب کی ایک اور تمثیل تفسیر مظہری میں قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ بِذِکۡرِ اللہِ معنیٰ میں فِی ذِکۡرِ اللہِ کے ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ اتنا کثرت سے ذکر کرو کہ ذکر میں غرق ہوجاؤ، جب ذکر میں ڈوب جاؤگے یعنی سر سے پیر تک کوئی اعضا گناہ میں مبتلا نہ ہوگا تب جاکر اطمینان کامل ملے گا اور مثال بھی کتنی پیاری دی کَمَا تَطْمَئِنُّ السَّمَکَۃُ فِی الْمَاءِ 16؎مچھلی کو کب سکون ملتا ہے؟ جب فِی الْمَاءِ ہوتی ہے، پانی میں ڈوبی ہوئی ہوتی ہے۔ اگر بِالْمَاءِ ہے یعنی پانی کے ساتھ تو ہے، گردن تک پانی میں ڈوبی ہوئی ہے لیکن مکشوفۃ الرأس ہے یعنی سر کھلا ہوا ہے تو کیا اس کو چین ملے گا؟ جب کھوپڑی گرم ہوگی تو دم تک گرمی آجائے گی اور پانی کے ساتھ ہونے کے باوجود بے چین رہے گی جب تک ہمہ تن غرقِ آب نہ ہوجائے۔ اسی طرح جو شخص اللہ کے دریائے قرب میں سر سے پیر تک ڈوب جائے، کسی اعضاکو گناہ نہ کرنے دے تب اسے اطمینان کامل ملے گا اور اگر کبھی خطا ہوجائے تو استغفار وتوبہ سے فوراً تلافی کرے جیسے کبھی مچھلی بھی لالچ میں آکر شکاری کا چارہ لگایا ہوا کانٹا نگل لیتی ہے اور پانی سے باہر نکل آتی ہے، لیکن پھر کیا کرتی ہے؟ کانٹا نکالنے کے لیے جھٹکا مارکر گلا پھاڑ لیتی ہے اور کود کر پھر دریا میں چلی جاتی ہے۔ اس لیے اگر کبھی نفس وشیطان کسی گناہ کے ماحول میں لے جائیں، دریائے قرب سے دور کریں تو فوراً اپنی پوری کوشش کے ساتھ فَفِرُّوۡۤا اِلَی اللہِ ہوجائیے، فرار سے اللہ تک پہنچیں گے قرار سے نہیں۔ اگر گناہ پر قرار رہے گا تو ساری زندگی گناہ کے پاخانہ _____________________________________________ 15؎الرعد:28 16؎التفسیر المظہری :261/10،الفجر(26)