منازل سلوک |
ہم نوٹ : |
|
کیا ان کے علاج کے لیے اشرف علی کافی نہیں ہے؟یہ آپ کب سے ڈاکٹر بن گئے؟ آپ کے اندر تکبر آگیا ہے، تم ذکر کے قابل نہیں ہو، حلوہ تب کھلایا جاتا ہے جب معدہ صحیح ہوتا ہے، اب تم ذکر کو ملتوی کرو، ترک کرو نہیں کہوں گا کیوں کہ اللہ کے نام کے ساتھ لفظ ترک لگانا بےادبی ہے لہٰذا ملتوی کہہ رہا ہوں کہ فی الحال ذکر ملتوی کردو اور وضو خانہ میں بلغم صاف کرو، نمازیوں کے جوتے سیدھے کرو، خانقاہ میں جھاڑو لگاؤ تاکہ تمہارے دماغ کا خناس نکلے، جب تک بڑائی نہیں نکلے گی کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ ایک عالم صاحب کے اخلاص کی حکایت ایک عالم نے اپنے شیخ سے کہا کہ حضرت آج کل ذکر میں مزہ نہیں آرہا۔ شیخ نے ان کی بول چال سے سمجھ لیا کہ ان کے اندر تکبر آگیا ہے۔ اللہ والوں کو چال ڈھال سے بیماری کا پتا چل جاتا ہے۔ فرمایا کہ مولانا! آج کل آپ کے اندر ایک شدید بیماری پیدا ہوگئی ہے لہٰذا اس کا علاج کرنا ہے۔ عرض کیا حضرت! جو علاج بتائیں میں حاضر ہوں۔ تھے مخلص مگر شیطان نے دل میں بڑائی ڈال دی تھی۔ بڑائی آنے کے بعد اللہ کی رحمت سے دور ہوگئے اور ذکر کا مزہ ختم۔ شیخ نے کہا کہ ایسا کرو پانچ کلو اخروٹ لے آؤ اور ٹوکرا سر پر رکھ کر ایسے محلہ میں جاؤ جہاں بچے زیادہ ہوں اور وہاں جاکر اعلان کرو کہ جو بچہ میرے سر پر ایک دھپ لگائے گا میں اس کو پانچ اخروٹ دوں گا۔ بس جیسے ہی مولانا پگڑی کے ساتھ بیٹھے تو پہلے ہی تھپڑ سے پگڑی اُڑ گئی۔ اب دے دھڑا دھڑ دھپ پڑ رہے ہیں۔ بچوں کو تو مزہ آگیا کہ پانچ اخروٹ بھی لو اور دھپ لگانے کا مزہ الگ، لہٰذا کود کودکر لگارہے ہیں اور مولانا حکم شیخ پر سر جھکائے بیٹھے ہیں۔ آہ! کتنا مخلص تھا یہ شخص۔ آسمان پر فرشتوں میں بھی زلزلہ آگیا ہوگا کہ اتنا بڑا عالم ا ور آج یوں اس کی پگڑی اچھل رہی ہے۔ اللہ کو پانے کے لیے اپنی ذلت گوارا کررہا ہے۔ تھوڑی دیر میں ٹوکرا خالی ہوگیا اخروٹ سے اور کھوپڑا خالی ہوگیا تکبر سے۔ اس کے بعد جب آکر انہوں نے اللہ کہا تو زمین سے آسمان تک روشنی پھیل گئی، زمین سے آسمان تک شہد سے بھرگیا،رگ رگ میں اللہ کے نام کی مٹھاس دوڑگئی اور جاکر اپنے شیخ سے عرض کیا کہ جزاک اللہ کہ چشم باز کردی۔ آپ کا احسان و کرم ہے کہ اتنا کڑوا کریلا نیم چڑھا تو آپ نے پلایا لیکن اللہ مل گیا ؎