منازل سلوک |
ہم نوٹ : |
|
نشتر اس چاقو کو کہتے ہیں کہ جس کو ڈاکٹر آپریشن کرتے وقت چلاتا ہے اور سارا مواد نکال دیتا ہے تو کوئل کی آواز سے بھی خدا کے عاشقوں کے دل میں ایک تڑپ پیدا ہوتی ہے۔ مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب کوئل ’’کو‘‘ کہتی ہے تو اس میں اشارہ ہے ’’ کہ او‘‘ کہاں ہے وہ اللہ، کوئل بھی تلاش میں ہے، وہ بھی اپنی آواز میں اللہ تعالیٰ کو تلاش کررہی ہے۔ اس لیے اس کی عجیب آواز ہے ؎کوئل کا دور دور درختوں پہ بولنا اور دل میں اہل درد کے نشتر گھنگھولنا نشتر پر ایک بات یاد آئی۔ گورنر عبدالرب نشتر شاعر بھی تھے اور پاکستان کے صوبہ پنجاب کے گورنر بھی تھے۔ جگر صاحب ان سے ملاقات کرنے گئے۔ شاعر ذرا ایسے ہی رہتے ہیں، بال بکھرے ہوئے، الول جلول، کپڑے بھی میلے۔ دروازے پر جو دربان تھا اس سے کہا کہ میں نشتر صاحب سے ملنا چاہتا ہوں۔ دربان انہیں کیا پہچانتا، اس نے کہا کہ بھاگ جاؤ، تمہارا منہ ہے کہ تم گورنر عبدالرب نشتر سے ملوگے۔ یہ منہ اور مسور کی دال۔ میرے شیخ شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ یہ منہ اور مسور کی دال جو مشہور ہے یہ محاورہ صحیح نہیں ہے، حقیقت میں محاورہ یوں تھا کہ یہ منہ اور منصور کی دار یعنی تمہارا منہ کہاں کہ دارِ منصور پر چڑھ جاؤ اور خدا پر جان دے دو، اس کا حوصلہ اور ہمت بڑے خاص لوگوں کو ہوتی ہے۔ یہ منہ اور منصور کی دار بگاڑ بگاڑ کر دیہاتیوں نے مسور کی دال بنادیا ورنہ صرف مسور کی دال میں ایسی خصوصیات نہیں ہیں کہ جس کے لیے کوئی خاص منہ ہونا چاہیے۔ خیر جب پولیس نے ملانے سے انکار کیا تو جگرصاحب نے جلدی سے جیب سےکاغذ نکالا اور اس پر کچھ لکھ کر کہا کہ یہ پرچہ عبدالرب نشتر کو دے دو۔ وہ پولیس والے جگر صاحب کو نہیں پہچانتے تھے، دیہاتی حوش کیا سمجھے کہ موتی کیا چیز ہے؟ موتی کی قدر جوہری جانتا ہے۔ اہل اللہ کی ناقدری کرنا علامتِ بدبختی ہے اسی طرح اللہ والوں کی قدر ہر ایک کونہیں ہوتی، ہر ایک کو پتا نہیں کہ وہ کیا ہیں؟