منازل سلوک |
ہم نوٹ : |
|
کچھ کریں گے۔ اسی طرح آپ بھی اللہ سے کہہ کر بے فکر ہوجائیں۔ دو رکعات صلوٰۃ الحاجت پڑھ کر، اللہ تعالیٰ سے درخواست لگاکر بے فکر ہوجائیے اور اللہ کے ذکر اورتلاوت اور دین کے کام میں لگ جائیے۔اس خیال کو بھی چھوڑیے کہ دیکھیے! اللہ تعالیٰ اب کیا کرتے ہیں، وہ ارحم الراحمین ہیں، جو بات ہمارے لیے مفید ہوگی اس کا ظہور فرمادیں گے۔ تین دن سے زیادہ ترک کلام کی تفصیل تو ہجرانِ جمیل یہ ہے کہ موذیوں اور معاندین سے جدا ہوجاؤ، مگر انتقام نہ لو، نہ شکایت کرو۔ تین دن سے زیادہ بولنا چھوڑ دینا جو حرام ہے، یہ ان کے لیے ہے جو معمولی دنیاوی باتیں ہوجاتی ہیں کہ شادی میں نہیں آئے، غمی میں نہیں آئے یا باتوں باتوں میں تکرار ہوگئی اور کوئی سخت جملہ زبان سے نکل گیا، لیکن جو مسلسل ستا رہا ہو، مستقل موذی ہو جس کا مزاج ہی بچھو کی طرح ہو کہ جب آتا ہے فتنہ مچاتا ہے، بھائی بھائی کو لڑادیتا ہے، کوئی ایسی بات کہہ جاتا ہے کہ اب میاں بیوی میں لڑائی ہو رہی ہے۔ ایسے مفسدین کے لیے مُلّاعلی قاری شرح مشکوٰۃ میں فرماتے ہیں کہ ایسے شخص سے ہمیشہ کے لیے ترکِ تعلق جائز ہے، چاہے وہ دینی ضرر پہنچارہا ہو یا دنیا کا، اور فرمایا کہ رُبَّ صَرْمٍ جَمِیْلٍ خَیْرٌ مِّنْ مُّخَالَطَۃٍ تُؤْذِیْہِ 21؎ بعض جدائی موذی میل جول سے بہتر ہے یعنی ایسے شخص سے جدا ہوجانا اس میل جول سے بہتر ہے جو مستقل ایذا کا سبب ہے۔ بعضے رشتہ دار سے مجھے یہی کرنا پڑا، جتنا جھکتے جاؤ اتنا ہی اور ستاتا تھا۔ بعضوں کے مزاج میں ایسا فساد ہوتا ہے کہ ان کی اصلاح محال ہے جیسے کتے کی دُم کہ دس سال تک نلکی میں رکھو لیکن جب نکالو گے تو ٹیڑھی ہی نکلے گی۔ پھر جب میں نے ملّا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ کی یہ شرح دیکھی تو مفتی رشید احمد صاحب سے تصدیق کی۔ فرمایا کہ اس پر محدثین کا بھی اجماع ہے اور فقہاء کا بھی اجماع ہے اور حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب کو بھی لکھا۔ حضرت نے فرمایا کہ بہترین مشورہ ہے۔ آخر میں کئی سال کے بعد ان کو ہدایت ہوگئی اور معافی مانگ کر پھر آگئے۔ البتہ ایسے معاملات میں پہلے اپنے بزرگوں سے مشورہ بھی کرلے _____________________________________________ 21؎مرقاۃ المفاتیح:262/9، باب ماینھی من التھاجر والتقاطع ،المکتبۃ الامدادیۃ، ملتان