منازل سلوک |
ہم نوٹ : |
|
تعلق قائم کرو۔ غرض اب جگر صاحب کی ہدایت کا آغاز ہورہا ہے، نقطۂ آغازِ ہدایت اس شعر سے ہوا ؎اب ہے روزِ حساب کا دھڑکا پینے کو تو بے حساب پی لی یعنی اب دل دھڑک رہا ہے کہ قیامت کے دن اللہ کو کیا جواب دوں گا کہ ظالم میں نے شراب کو حرام کیا تھا اور تو اس قدر پیتا تھا، تجھے شرم بھی نہ آئی کہ مجھے قیامت کے دن پیش ہونا ہے۔ پس فوراً خواجہ عزیز الحسن صاحب مجذوب رحمۃ اللہ علیہ سے مشورہ لیا کہ خواجہ صاحب آپ کیسے اللہ والے ہوگئے؟ کس کی صحبت نے آپ کو ایسا متبع سنت بنادیا؟ آپ تو ڈپٹی کلکٹر ہیں،ڈپٹی کلکٹر اور گول ٹوپی اور لمبا کرتا، عربی پاجامہ اور ہاتھ میں تسبیح۔ میں نے تو دنیا میں کہیں ایسا ڈپٹی کلکٹر نہیں دیکھا، یہ آپ کی ٹرکس نے نکالی اے مسٹر؟ فرمایا کہ تھانہ بھون میں حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ نے یہ ٹر نکال دی۔ مسٹر کی ٹر کو مس کردیا۔ تو کہا کہ کیا مجھ جیسا شرابی بھی تھانہ بھون جاسکتا ہے؟ مگر شرط یہ ہے کہ میں تو وہاں بھی پیوں گا کیوں کہ اس کے بغیر میرا گزارا نہیں۔ خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ تھانہ بھون پہنچے اور کہا کہ جگرصاحب اپنی اصلاح کے لیے آنا چاہتے ہیں لیکن کہتے ہیں کہ میں خانقاہ میں بھی بغیر پیے نہیں رہ سکتا۔ اہل اللہ کی عالی ظرفی حضرت رحمۃ اللہ علیہ ہنسے اور فرمایا کہ جگرصاحب سے میرا سلام کہنا اور یہ کہنا کہ اشرف علی ان کو اپنے مکان میں ٹھہرائے گا،خانقاہ تو ایک قومی ادارہ ہے، اس میں تو ہم اجازت دینے سے مجبور ہیں لیکن ان کو میں اپنا مہمان بناؤں گا۔ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مکان میں جب کافر کو بھی مہمان بناتے تھے تو اشرف علی ایک گناہ گار مسلمان کو کیوں مہمان نہ بنائے گا جو اپنے علاج اور اصلاح کے لیے آرہا ہے۔ جگر صاحب نے جب یہ سنا تو رونے لگے اور کہا کہ آہ! ہم تو سمجھتے تھے کہ اللہ والے گناہ گاروں سے نفرت کرتے ہوں گے لیکن آج پتا چلا کہ ان کا قلب کتنا وسیع ہوتا ہے۔ بس تھانہ بھون پہنچ گئے اور عرض کیا کہ