منازل سلوک |
ہم نوٹ : |
|
کہ آیت کی ترتیب بتارہی ہے کہ جس فکر میں ہو، جس حالت میں ہو فوراً اللہ تعالیٰ کا ذکر شروع کردو۔ ذکر اللہ ہی کی برکت سے تم فکروں سے چھوٹو گے کیوں کہ جب سورج نکلے گا جب ہی رات بھاگے گی۔ غیراللہ اور افکارِ دنیویہ جب ہی مغلوب ہوں گے جب اللہ تعالیٰ کو یاد کروگے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ پہلے قلب کو یکسو کرو پھر میرا نام لو بلکہ یہ فرمایا کہ پہلے میرا نام لو، میرے نام ہی کی برکت سے تم کو افکار و غم اور پریشانیوں سے نجات ملے گی اور یکسوئی حاصل ہوگی۔ اگر تبتل ذکر پر موقوف نہ ہوتا تو آیت کی تقدیم دوسرے اسلوب پر نازل ہوتی ہے اور وَ تَبَتَّلۡ اِلَیۡہِ تَبۡتِیۡلًا مقدم ہوتا وَ اذۡکُرِ اسۡمَ رَبِّکَ پر جس کے معنیٰ یہ ہوتے کہ پہلےغیراللہ سے یکسو ہوجاؤ پھر ہمارا نام لو لیکن وَ اذۡکُرِ اسۡمَ رَبِّکَ کی تقدیم بتارہی ہے کہ تبتل اور یکسوئی ہمارے ذکر ہی پر موقوف ہے۔ پہلے تم ہمارا نام لینا شروع کردو، ہمارے ذکر کی برکت سے تمہیں خودبخود یکسوئی حاصل ہوتی جائے گی اور غیراللہ دل سے نکلتا چلا جائے گا۔ مثنوی میں تبتل کی عاشقانہ تمثیل اس آیت کی تفسیر مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ نے عجیب انداز سے فرمائی ہے۔ یہ عاشقوں کی تفسیر ہے۔ فرماتے ہیں کہ ایک دریا کے کنارے ایک شخص واجب الغسل کھڑا تھا، جس کے بدن پر نجاست لگی ہوئی تھی، دریا نے کہا کہ کیا بات ہے؟ تُو بہت دیر سے باہر کھڑا ہے۔ کہا کہ مارے شرم کے تیرے اندر نہیں آرہا ہوں کہ میں ناپاک ہوں اور تو پاک ہے۔ دریا نے کہا کہ تو قیامت تک ناپاک ہی کھڑا رہے گا، جس حالت میں ہے میرے اندر کود پڑ، تیرے جیسے لاکھوں یہاں پاک ہوتے رہتے ہیں اور میرا پانی پاک رہتا ہے۔ لہٰذا اللہ کی یاد میں دیر مت کرو، کیسی ہی گندی حالت میں ہو اللہ کا نام لینا شروع کردو، ذکر کی برکت سے غیراللہ کی نجاست چھوٹے گی۔ ذکر مشورہ سے کیجیے لیکن کسی اللہ والے سے مشورہ کرکے ذکر کرو۔ جب حضرت حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ نے یہ بات فرمائی تو خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ایک اشکال پیش کیا کہ حضرت! یہ اللہ