منازل سلوک |
ہم نوٹ : |
|
انوارِ یقین اہل اللہ کے قلوب سے ملتے ہیں ایک شخص نے لکھا کہ حضرت کیا شیخ سے صرف خط و کتابت سے ہم ولی اللہ نہیں ہوسکتے؟فرمایا کہ اگر بیوی لاہور میں اور شوہر کراچی میں ہے اور دونوں عمر بھر خط و کتابت کرتے رہیں تو کیا بچہ پیدا ہوگا؟ اصل میں شیخ کی خدمت میں جسم کے ساتھ حاضر رہنے سے شیخ کے قلب سے مرید کے قلب میں انوارِ یقین و انوارِ نسبت منتقل ہوتے رہتے ہیں۔ کتابوں سے ہمیں شریعت کے کمیات ملتے ہیں یعنی مقادیرِ احکامِ شرعیہ کہ مغرب کی تین رکعات ہیں، عشاء کی چار، فجر کی دو ہیں وغیرہ لیکن کس کیفیت سے ہم نماز پڑھیں، کس درد سے سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی کہیں، کس کیفیتِ ایمانی سے اللہ کا نام لیں۔ یہ کیفیات ملتی ہیں اللہ والوں کے سینوں سے۔ کمیات احکامِ شرعیہ کے ملتے ہیں کتابوں سے اور کیفیاتِ ایمانیہ ملتی ہیں اہل اللہ کے سینوں سے۔ ان کے دل کا نورِ یقین ان کے پاس بیٹھنے والوں کے دلوں میں منتقل ہوجاتا ہے۔ اسی لیے حضرت حکیم الامت مجدد الملت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اے علمائے دین! میرے علم میں جو برکت آپ دیکھ رہے ہیں یہ خالی کتب بینی سے نہیں حاصل ہوئی بلکہ قطب بینی سے حاصل ہوئی ہے۔ میں نے کتب بینی کے ساتھ قطب بینی بھی کی ہے۔ میں نے شیخ العرب و العجم حضرت حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ کی زیارت کی،مولانا گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کی زیارت کی، مولانا یعقوب نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کی زیارت کی۔ یہ حضرات اپنے وقت کے قطب تھے۔ اگر آج بھی وہ علمائے دین جن کا تعلق کسی سے نہ ہو اگر کسی اللہ والے سے جس سے مناسبت ہو تعلق قائم کرلیں تو زندگی کا مزہ آجائے۔ نفع کا مدار مناسبت پر ہے لیکن مناسبت شرط ہے، بدون مناسبت کے نفع نہیں ہوتا۔ خون اس کا چڑھواتے ہیں جس سے خون کا گروپ ملتا ہو، جس سے مناسبت ہو اس کے پاس زندگی میں چالیس دن لگانا کیا مشکل ہے۔ اگر اصلاح ہوجائے اللہ مل جائے، جنت مل جائے تو ایسے چالیس دن کی کیا حقیقت ہے، سستا سودا ہے۔ آپ سے جو خطاب کررہا ہے سولہ برس شاہ عبدالغنی صاحب کی