منازل سلوک |
ہم نوٹ : |
|
میرے گھر میں سونا نہیں ہے میں فقیر ہوں ؎ولے دارم خدائے زر امیرم لیکن میں زر کا خالق رکھتا ہوں۔ جو سونا پیدا کرتا ہے وہ میرے دل میں ہے۔ بتاؤ میرے برابر کون امیر ہے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے سلاطین مغلیہ کو خطاب کرکے فرمایا تھا کہ ولی اللہ اپنے سینے میں ایک دل رکھتا ہے، اس دل میں اللہ تعالیٰ کی نسبت کے موتی ہیں، تعلق مع اللہ کی دولت ہے ؎دلے دارم جواہر پارۂ عشق است تحویلش کہ دارد زیر گردوں میر ساما نے کہ من دارم آسمان کے نیچے کوئی مجھ سے بڑا رئیس ہو تو آجائے۔ سلاطین مغلیہ کو خطاب ہورہا ہے۔ ان کو اللہ والے کہتے ہیں۔ یہ نہیں کہ کوئی سیٹھ آگیا تو مولوی صاحب اس کے پیچھے پھررہے ہیں اور اس دن اشراق میں سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی سات مرتبہ کہہ رہے ہیں جبکہ روزانہ تین مرتبہ پڑھتے تھے یعنی چندہ گھسیٹنے کے لیے آج سجدہ میں سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی سات مرتبہ پڑھا جارہا ہے تاکہ وہ سیٹھ سمجھے کہ یہ تو بہت پہنچا ہوا شخص ہے، اس کو چندہ ذرا زیادہ دینا چاہیے۔ اس مکر وفریب سے اللہ خوب واقف ہے۔ کوئی بھی صاحبِ نسبت کبھی کسی مخلوق سے مرعوب نہیں ہوسکتا، نہ کسی کی دولت سے مرعوب ہوسکتا ہے لیکن اکرام کرے گا تاکہ شاید یہ اللہ والا ہوجائے، مال داروں کو حقیر نہیں سمجھے گا، ان پر بھی اس نیت سے محنت کرے گا کہ شاید وہ بھی اللہ والے بن جائیں۔ ذکر کے حکم میں صفتِ ربوبیت کے بیان کی حکمت حضرت حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں وَ اذۡکُرِ اسۡمَ رَبِّکَ میں ربّ کیوں فرمایا جبکہ وَ اذۡکُرِ اسۡمَ اللہِ بھی ہوسکتا تھا۔ بات یہ ہے کہ پالنے والے کی محبت ہوتی ہے، پالنے والے کو آدمی محبت سے یاد کرتا ہے۔ بتائیے! ماں باپ کی یاد میں مزہ آتا ہے یا نہیں؟ تو یہاں ربّ اس لیے نازل فرمایا کہ میرا نام محبت سے لینا، خشک مُلّاؤں کی طرح میرا