منازل سلوک |
ہم نوٹ : |
|
ہیں اور تیسرا ری یونین میں رہتا ہے جہاں عورتیں عریاں پھررہی ہیں،اس کو قدم قدم پر مجاہدہ ہے، ہر نظر بچانے پر ایک زخم دل پر لگ جاتا ہے، اس کو اللہ تک پہنچنے میں پچاس چاقو لگے ہیں۔ تو کیا اللہ تعالیٰ ارحم الراحمین یہاں کے مسلمانوں کو ایسے ہی زخم خوردہ چھوڑ دیں گے اور اپنے قرب کی مٹھاس نہ چکھائیں گے؟میں کہتا ہوں کہ یہاں صرف نظر کی حفاظت کرلے، ایمان کی وہ مٹھاس عطا فرمائیں گے جو اور جگہ ملنا مشکل ہے کیوں کہ یہاں مجاہدہ زیادہ ہے تو مشاہدہ بھی اسی کے بقدر ہوگا۔ اگر یہاں ذرا ہمت سے کام لے تو آدمی زبردست ولی اللہ بن سکتا ہے۔ یہاں کوئی اگر تہجد، اشراق، چاشت کچھ نہ پڑھے، صرف فرض، واجب، سنتِ مؤکدہ ادا کرے اور نظر کی حفاظت کرے تو اولیائے صدیقین میں شامل ہوسکتا ہے۔ ایمان کی ایسی حلاوت عطا ہوگی کہ بڑے بڑے تہجد گزار اس کو نہیں پاسکتے۔ ہاں تو تبتل کی تفسیر عرض کررہا تھا کہ غیراللہ سے یکسوئی جب ملے گی جب اللہ ملے گا، ستارے جب معدوم ہوں گے جب سورج نکلے گا، رات جب بھاگے گی جب آفتاب طلوع ہوگا۔ پہلے اللہ کو دل میں لاؤ، اللہ کا نام لینا شروع کردو، غیراللہ خود ہی دل سے نکل جائے گا اور آپ کا دل اللہ سے چپکتا چلا جائے گا، جو خالق مقناطیس ہے جس کی پیدا کردہ مقناطیس سے آج دنیا کا گولا فضاؤں میں پڑا ہوا ہے، نیچے کوئی کھمبا نہیں ہے۔ جو اللہ اتنا بڑا مقناطیس پیدا کرسکتا ہے کہ دنیا کا اتنا بڑا گولا جس پر سمندر اور پہاڑ سب لدے ہوئے ہیں بغیر کسی سہارے کے فضاؤں میں معلق پڑا ہوا ہے، اس اللہ کے نام میں کتنی چپک، کتنا مقناطیس اور کتنی کشش ہوگی۔ آہ! اللہ کا نام لے کر تو دیکھو، اپنی ذاتِ پاک سے ایسا چپکالیں گے کہ ساری دنیا آپ کو ایک بال کے برابر الگ نہیں کرسکتی۔ مثنوی سے تبتل کی مزید وضاحت اس تبتل اور یکسوئی کی تفسیر مولانا رومی نے ایک اور واقعہ میں عجیب انداز سے کی ہے۔ فرماتے ہیں کہ ایک مچھر نے حضرت سلیمان علیہ السلام کی خدمت میں درخواست کی کہ حضرت یہ ہوا مجھ کو پیٹ نہیں بھرنے دیتی، جب بھوک میں کسی انسان کا میں خون چوستا ہوں تو ہوا آتی ہے اور میرے قدم اکھاڑ دیتی ہے اور مجھے میلوں بھگادیتی ہے۔ حضرت