منازل سلوک |
ہم نوٹ : |
|
جب وہ قرآنِ پاک یاد کرتے تھے تو ایک ایک لفظ کا رسوخ و تکرار کرتے تھے، تکرار لفظ سے ذکر راسخ ہوجاتا تھا۔ وہ زمانہ تو عہدِ نبوت کا تھا۔ نبوت کی ایک نظر سے وہ صاحبِ نسبت ہوتے تھے اور نسبت بھی ایسی کہ قیامت تک آنے والا بڑے سے بڑا ولی ایک ادنیٰ صحابی کے برابر نہیں ہوسکتا۔ اب زمانہ عہدِ نبوت سے بُعد کا آگیا لہٰذا صوفیانے یہ طریقہ نکالا کہ جیسے صحابہ ایک ایک لفظ کی تکرار کرکے قرآن یاد کرتے تھے مثلاً اِذَا السَّمَآءُ انۡشَقَّتۡ ،17؎ اِذَا السَّمَآءُ انۡشَقَّتۡ اسی طرح ہم بار بار اللہ اللہ کہتے ہیں تاکہ اللہ دل میں یاد ہوجائے، یاد تو ہے لیکن دماغ میں ہے، دل میں جب اُترے گا جب بار بار ہم اللہ کہیں گے۔ ایک بزرگ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ بندوں سے یہ شکایت کرتے ہیں کہ ؎مرا د اری ولَے برلب نہ در دل بہ لب ایماں بہ دل ایماں نہ داری مجھ کو تم اے مسلمانو! رکھتے تو ہو مگر ہونٹوں پر، دل میں نہیں رکھتے ہو۔ آثارِ نسبت مع اللہ یہاں پر ایک بات بتاؤں کہ کسی مال دار کو دیکھ کر جو مولوی للچا جاتا ہے وہ صاحبِ نسبت نہیں ہے، صاحبِ نسبت کی ایک علامت یہ ہے کہ وہ سارے عالم سے مستغنی ہوجاتا ہے، سلاطین کے تخت و تاج سے، مال داروں کے مال و دولت سے، ساری کائنات سے، زمین و آسمان سے، سورج اور چاند سے بے نیاز ہوجاتا ہے، کیوں کہ خالق آفتاب جس کے دل میں آتا ہے بے شمار آفتاب کے ساتھ آتا ہے۔ خالق ماہ تاب جس کے دل میں آتا ہے بے شمار ماہ تاب اس کے دل میں ہوتے ہیں۔ یہ سمندر اور پہاڑ کیا چیز ہیں اس کے مقابلے میں۔ ایک اللہ والا جارہا تھا، کسی نے کہا کہ میاں شاہ صاحب! آپ کے پاس کتنا سونا ہے؟ شاہوں کے پاس تو سونا ہونا چاہیے اور آپ شاہ کہلاتے ہیں تو اس بزرگ نے ہنس کر فرمایا ؎بخانہ زر نمی دارم فقیرم _____________________________________________ 17؎الانشقاق: 1