منازل سلوک |
ہم نوٹ : |
پیشاب میں لت پت پڑے رہیں گے۔ آج کل کے صوفیاپر چند اعتراضات اور ان کے جواب یہ دو باتیں پیش کردیں، اب دو تین باتیں تصوف کے بارے میں عرض کروں گا۔ ایک بات تو یہ کہ لوگ کہتے ہیں کہ اس زمانے کے صوفیا ذکر کم کرتے ہیں اور پہلے زمانے جیسی عبادت نہیں کرتے۔ دوسری بات یہ کہ پہلے زمانے کے صوفیا دال روٹی اور پانی میں باسی روٹی بھگوکر کھاتے تھے، آج کل کے صوفیایخنی اور مرغ پلاؤ کھاتے ہیں۔ اور تیسرا اعتراض یہ کہ لباس بھی بہت شاندار پہنتے ہیں۔ پیوند والا، ٹاٹ اور موٹے کپڑے کا نہیں پہنتے، بڑے ٹھاٹھ باٹ سے رہتے ہیں۔ جواب نمبر۱:اب تینوں کا جواب سنیے۔ نمبر ایک: پہلے زمانے کے صوفیا کے جسم میں خون اتنا زیادہ ہوتا تھا کہ ہر سال انہیں خون نکلوانا پڑتا تھا، اگر فصد نہ کھلوائیں تو خون کی زیادتی سے سر میں درد رہنے لگتا تھا اور اب کے زمانے کے صوفیا کو خون چڑھوانا پڑتا ہے، خون نکلوانے والے زمانے کے احکام خون چڑھوانے والے زمانے پر کیسے لاگو ہوجائیں گے؟ زمانے کے بدلنے سے احکام بدل جاتے ہیں، لہٰذا جب کمزوری کا زمانہ آگیا تو بزرگانِ دین نے ذکر کی تعداد کو کم کردیا، اب اگر کوئی اتنا ذکر کرے جتنا کہ پہلے بزرگانِ دین کیا کرتے تھے تو پاگل ہوجائے گا۔ میرے شیخ شاہ عبدالغنی صاحب فرمایا کرتے تھے کہ ایک پہلوان ستر ہزار بار اللہ اللہ کرنے سے جس مقام قرب پر پہنچے گا ایک کمزور پانچ سو بار میں اسی مقام پر پہنچے گا، قرب میں ذرّہ برابر کمی نہ ہوگی۔ اللہ تعالیٰ ظالم تھوڑی ہیں کہ کمزوروں سے بھی اتنی ہی محنت چاہیں جتنی طاقت ور سے چاہتے ہیں۔اور ولایت ذکر پر نہیں گناہوں سے بچنے پر موقوف ہے۔ لہٰذا آج بھی جو سچے اللہ والے ہیں وہ ہر گناہ سے بچتے ہیں اور جو پہلے اولیاء گزرے ہیں وہ بھی تقویٰ ہی سے ولی ہوئے تھے، محض ذکر سے نہیں، ذکر تو تقویٰ کا معین ہے۔ جواب نمبر۲:اور دوسرے اعتراض کا جواب یہ ہے کہ جب زمانہ کمزوری کا آگیا تو اب طاقت کی غذا کھانا صوفیا کے لیے ضروری ہے کیوں کہ جب طاقت ہی نہ ہوگی تو کیا عبادت کریں گے اور کیا دین کاکام کریں گے۔