منازل سلوک |
ہم نوٹ : |
|
ہجرانِ جمیل کا ثبوت اور وَ اہۡجُرۡہُمۡ ہَجۡرًا جَمِیۡلًا اور خوبصورتی کے ساتھ ان سے الگ ہوجاؤ۔ الگ ہونا یہ ہے کہ کوئی تعلق نہ رکھو اور خوبصورتی سے یہ ہے کہ ان کی شکایت اور انتقام کی فکر میں نہ پڑو، اور یہ آخری مسئلہ ہے تصوف کا ہجرانِ جمیل جس کو تفسیر مظہری میں اس آیت سے ثابت کیا گیا ہے۔ ہجرانِ جمیل کیا ہے؟ اور ہجرانِ جمیل کی تفسیر مفسرین نے یہ کی ہے: اَلْہِجْرَانُ الْجَمِیْلُ الَّذِیْ لَاشِکْوٰی فِیْہِ وَلَا انْتِقَامَ خوبصورتی کے ساتھ الگ ہونا یہ ہے جس میں شکایت نہ ہو اور انتقام کا ارادہ بھی نہ ہو۔ کیوں کہ جس نے اپنے دُشمن سے انتقام لیا وہ مخلوق میں پھنس گیا اور جو مخلوق میں پھنس گیا اس کو خالق کیسے ملے گا؟ اسی لیے علامہ ابوالقاسم قشیری رحمۃ اللہ علیہ اپنے رسالہ قشیریہ میں فرماتے ہیں: اِنَّ الْوَلِیَّ لَایَکُوْنُ مُنْتَقِمًا وَالْمُنْتَقِمَ لَایَکُوْنُ وَلِیًّا کوئی ولی اللہ منتقم نہیں ہوتا اور کوئی منتقم ولی اللہ نہیں ہوسکتا۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں سے کیا فرمایا تھا؟ لَاتَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ تم پر آج کوئی الزام نہیں۔ ارے! یہ تو شیطان نے ہمارے تمہارے درمیان فساد ڈلوادیا تھا۔ تم نے کوئی گڑ بڑ تھوڑی کی تھی۔ آہ! اپنے بھائیوں کی دلجوئی بھی کررہے ہیں تاکہ ان کو ندامت بھی نہ رہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ دین کے خدام کو یہی اخلاق رکھنے چاہئیں ورنہ اگر بدلہ و انتقام کی فکر میں پڑے تو دل مخلوق میں پھنس جائے گا اور پھر دین کا کام نہیں ہوسکتا، لہٰذا اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے بیان القرآن کے حاشیہ میں مسائل السلوک کے تحت یہ مسئلہ بیان فرمایا کہ مَنْ یَّنْظُرُ اِلٰی مَجَارِی الْقَضَاءِ لَایُفْنِیْ اَیَّامَہٗ بِمُخَاصَمَۃِ النَّاسِ جس شخص کی نظر مجاری قضا پر ہوتی ہے، مشیتِ الٰہیہ، اللہ تعالیٰ کے فیصلوں پر ہوتی ہے، وہ اپنی زندگی کے دنوں کو مخلوق کے جھگڑے میں ضایع نہیں کرتا اور وہی کہتا ہے جو حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ لَاتَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ تم پر کوئی الزام نہیں کیوں کہ جانتے تھے کہ بغیر مشیتِ الٰہی کے یہ بھائی مجھے کنویں میں نہیں ڈال سکتے تھے ؎