منازل سلوک |
ہم نوٹ : |
|
حضرت مولانا شاہ وصی اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ حضرت حکیم الامت مجدد الملت مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ تھے۔ ایک مسلمان افسر زیارت کے لیے آیا تو حضرت پستہ اور بادام کھارہے تھے چوں کہ بہت ذکروشغل اور دماغی محنت کرتے تھے۔ اس افسر نے واپس آکر کہا کہ توبہ توبہ! میں نے تو سمجھا تھا کہ کوئی ولی اللہ ہوں گے یعنی حضرت حکیم الامت کے خلیفہ شاہ وصی اللہ صاحب کو کہہ رہا ہے کہ میں نے تو سمجھا تھا کہ کوئی بزرگ آدمی ہوں گے لیکن یہ کیا بزرگ ہیں،پستے اور بادام اُڑارہے ہیں۔ ارے بزرگ تو وہ ہے جو سوکھی روٹی پانی میں ڈبوکر کھائے۔ یہ حال ہے جہالت وبدعقلی کا۔ ایسے جاہلوں سے خدا بچائے۔ اس جاہل کو کیا پتا کہ ان کا بادام کھانا ہماری سوکھی روٹی سے افضل ہے کیوں کہ ان کا بادام اللہ کی راہ پر خرچ ہوگا۔ اس سے جو طاقت آئے گی اس سے وہ تصنیف کریں گے، تقریر کریں گے، تبلیغ کریں گے۔اللہ والوں کا کھانا بھی نور ہے، عبادت ہے، ان کا پہننا بھی عبادت ہے۔ جواب نمبر۳:ایک مرتبہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے سنت سمجھ کر پیوند لگا ہوا کُرتا پہن لیا اور سفر پر جارہے تھے۔ پیرانی صاحبہ نے عرض کیا کہ ایک بات کہوں۔ فرمایا ہاں، کیا بات ہے؟ کہا کہ آپ کپڑے بدل لیجیے، دوسرے اچھے کپڑے پہن لیجیے کیوں کہ آپ جب اس لباس میں جائیں گے تو مرید سمجھیں گے کہ آج کل حضرت ضرورت مند ہیں۔ حضرت نے فرمایا جزاکِ اللہ، واقعی اگر میں اس لباس میں جاتا تو میرے مریدوں کو غم ہوتا اور وہ میرے لیے کپڑے بنوانے کی فکر کرتے لہٰذا یہ لباس خود سوال بن جاتا۔ چنا ں چہ حضرت نے دوسرا اچھا لباس پہن لیا۔ یہی جواب ہے اس اعتراض کا کہ اب علماء وصوفیا کیوں اچھا لباس پہنتے ہیں۔ شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اس زمانےمیں علماء کو لوگ حقیر سمجھ رہے ہیں، اس لیے ایسا لباس نہ پہنو جس سے احتیاج ظاہر ہو۔ خصوصاً جب کہیں جاؤ لباس اچھا پہن کر جاؤ ورنہ لوگ سمجھتے ہیں کہ آگئے قربانی کی کھال لینےیا چندہ مانگنے۔ اس لیے مفتی رشید احمد صاحب نے فرمایا کہ تین چیزوں کا اجتماع جائز نہیں ہے: ایک بیگ جس میں رسید بک ہوتی ہے، دوسرے داڑھی اور تیسرے رمضان، کیوں کہ مال دار جب دیکھتا ہے کہ اس کے ہاتھ میں رسید بک والا بیگ بھی ہے اور داڑھی بھی ہے اور مہینہ بھی رمضان کا ہے تو اس کے دل پر