منازل سلوک |
ہم نوٹ : |
|
ارْتِکَابِہٖ 14؎ کسی خلافِ شریعت کام کااگر وہ ارادہ کرے اور وہ صاحبِ نسبت ولی اللہ ہوچکا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو اپنی حفاظت میں لے لیتے ہیں اور گناہ کےارتکاب سے اس کو محفوظ رکھتے ہیں۔ یا تو گناہ کو اس سے بھگادیتے ہیں یا اس کو گناہ سے بھگادیتے ہیں۔ کوئی بے چینی پیدا کردیتے ہیں۔ یہ مقام وہ ہے کہ آدمی خود سمجھ جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے لیے قبول فرمالیا ہے۔ شاہ عبدالغنی صاحب پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ کسی کو اپنا ولی بناتے ہیں تو اسے بھی پتاچل جاتا ہے ؎ہم تمہارے تم ہمارے ہوچکے دونوں جانب سے اشارے ہوچکے خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا کہ بندہ جب صاحبِ نسبت ہوجاتا ہے تو کیا اسے پتا چل جاتا ہے کہ اس کو نسبت عطا ہوگئی؟ فرمایا کہ بالکل پتا چل جاتا ہے۔عرض کیا کہ حضرت کیسے؟ فرمایا کہ جب آپ بالغ ہوئے تھے تو کیا آپ کو دوستوں سے پوچھنا پڑا تھا کہ دوستو! بتانا عزیز الحسن بالغ ہوا یا نہیں؟ یا آپ کو خود پتا چل گیا تھا کہ میں بالغ ہوگیا۔ بالغ معنیٰ پہنچنے والا، البلوغ معنیٰ رسیدن، اسی طرح جب روح بالغ ہوتی ہے یعنی اللہ تک پہنچ جاتی ہے تو رگ رگ میں اللہ کی محبت، ایک درد اور اللہ سے خاص تعلق محسوس ہوجاتا ہے۔ مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎باز آمد آبِ من در جوئے من میرا پانی میرے دریا میں آگیا۔ جب پانی آئے گا تو دریا کو پتانہیں چلے گا؟ باز آمد شاہِ من در کوئے من میرے دل کی گلی میں میرا شاہ آگیا۔ جب اللہ دل میں آئے گا تو دل کو کیسے پتانہیں چلے گا؟ تو دوستو! دوسرے واقعہ سے کیا سبق ملا کہ دل کے انجن میں محبت وخشیت کا پیٹرول ہونا چاہیے تب علم کا نفع پہنچتا ہے، لازمی بھی اور متعدی بھی، اور خشیت ومحبت کے پیٹرول پمپ کہاں ہیں؟ اللہ والے ہیں۔قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ _____________________________________________ 15؎مرقاۃ المفاتیح:92/5،کتاب اسماء اللہ تعالٰی، المکتبۃ الامدادیۃ، ملتان