قال: تحتّہ، ثمَّ تقرصہ، ثم تنضحہ، ثم تصلي فیہ‘‘۔
اس حدیث کے تحت امام نوویؒ جو خود بھی شافعی ہیں ، تحریر فرماتے ہیں :
’’ومعنیٰ تنضِحہ:’’تغسلہ‘‘ وھو بکسر الضاد، کذا قال الجوھري وغیرہ وفي ھٰذا الحدیث وجوب غسل النجاسۃ بالماء‘‘۔
تو جس طرح ان تمام مقامات پر ’’لفظِ نضح ‘‘ اور ’’لفظِ رشّ‘‘کو غَسْل کے معنیٰ میں لیاگیا ہے، تو افر مختلف روایات میں تطبیق دینے کے لیے حنفیہ ان تمام مقامات پر ’’لفظِ نضح‘‘ اور ’’لفظِ رشّ‘‘ کو غَسل کے معنیٰ میں لے لیں ، تو اس میں کیا حرج ہے؟!البتہ احادیث سے اتنی بات ضرور سمجھ میں آتی ہے، کہ بولِ جاریہ اور بولِ غلام [کی تطہیر]میں فرق ہے، اور وہ یہ کہ بولِ جاریہ میں ’’ غَسْل شدید ‘‘ہو گا ، جب کہ بولِ غلام میں ’’ غَسْلِ خفیف‘‘۔
اب یہاں ایک سول رہ جاتا ہے کہ غلام اور جاریہ کے بول میں یہ فرق کیوں کیا گیا؟ [اگرچہ وہ فرق حنفیہ کے نزدیک مبالغہ اور عدمِ مبالغہ ہی کا ہے]اسکے مختلف جوابات دیے گئے ہیں ، جن میں بہتر یہ ہے کہ جاریہ کا بول زیادہ غلیظ اور مُنْتِنْ ہوتا ہے اور غلام کا اس درجہ میں غلیظ نہیں ہوتا، اور جب شیر خواری کی مدت گذر جائے تو غذا کے اثرات سے لڑکے کے پیشاب میں بھی غلظت پیدا ہو جاتی ہے، اس لیے اس موقع پر کوئی فرق نہیں رہتا، واللہ اعلم، (درس ترمذی، کتاب الطہارۃ، باب ما جاء :1؍386 تا 389، مکتبہ دار العلوم کراچی)
نومولود کو تحفے تحائف دینے کا بیان
بچوں کو ان کے بچپن میں جو تحفے تحائف دیئے جاتے ہیں ، اصلاً وہ انہی کی ملکیت ہوتے ہیں ،ہاں اگر ان کو دینے والے اگر والدین کو دینا چاہیں اور صرف رسماً بچوں کو پکڑائیں تو