ان کے مالک وہ بچے نہیں ہوں گے بلکہ اِن کے مالک ان بچوں کے والدین ہی ہوں گے۔
اس بارے میں حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ نے بہشتی زیور میں خوب تفصیل سے اس مسئلہ کو ذکر کیا ہے،ذیل میں وہ تفصیل نقل کی جاتی ہے، ملاحظہ فرمایں :
مسئلہ نمبر:1۔ ختنہ وغیرہ کسی تقریب میں چھوٹے بچوں کو جو کچھ دیا، اس سے مقصود خاص اس بچے کو دینا نہیں ہوتا، بلکہ ماں باپ کو دینا مقصود ہوتا ہے، اس لیے ایسے موقعوں پر دیا جانے والا ’’نیوتہ‘‘ بچے کی ملکیت نہیں ، بلکہ ماں باپ اس کے مالک ہیں ، جو چاہیں اس میں تصرف کریں ، البتہ اگر کوئی شخص خاص بچے ہی کو کوئی چیز ہبہ کرے تو پھروہی بچہ اس کا مالک ہے، اگر بچہ سمجھ دار ہے تو خود اس کا قبضہ کر لینا کافی ہے، جب قبضہ کر لیا تو مالک ہو گیا، اگر بچہ قبضہ نہ کرے یاقبضہ کرنے کے لائق نہ ہو تو اگر باپ ہو تو اس کے قبضہ کر لینے سے اور اگر باپ نہ ہو تو دادا کے قبضہ کر لینے سے بچہ مالک ہو جائے گا، اگرباپ دادا موجود نہ ہو ں تو وہ بچہ جس کی پرورش میں ہے، اس کو بچے کی طرف سے قبضہ میں لے لینا چاہیے اور باپ داداکے ہوتے ہوئے ماں ، نانی، دادی وغیرہ اور کسی کا قبضہ معتبر نہیں ۔
مسئلہ نمبر:2۔ اگر باپ یا اس کے نہ ہونے کے وقت دادا اپنے بیٹے، پوتے کو کوئی چیز دینا چاہے تو صرف اتناکہہ دینے سے ہبہ صحیح ہو جائے گا کہ میں نے اس کو یہ چیز دے دی، اور اگر باپ، دادا نہ ہوں تو ماں ، بھائی وغیرہ بھی اگراس کو کچھ دینا چاہیں اور وہ بچہ ان کی پرورش میں ہو تو ان کے اس کہہ دینے سے بھی وہ بچہ مالک ہو گیا، کسی کے قبضہ کی ضرورت نہیں ۔
مسئلہ نمبر:3۔ جو چیز اپنی اولاد کو دینی ہو، سب کو برابردینا چاہیے ، لڑکا لڑکی سب کو برابر دے، اگر کبھی کسی کو کچھ زیادہ دے دیا تو بھی کوئی حرج نہیں ، لیکن جسے کم دیا اس کو نقصان پہنچانا مقصود نہ ہو، ورنہ کم دینا درست نہیں ۔
مسئلہ نمبر:4۔ جو چیز نابالغ کی ملکیت میں ہو اس کا حکم یہ ہے کہ اسی بچے ہی کی ضرورت میں لگانا چاہیے، کسی اور کو اپنے استعمال میں لانا جائز نہیں ، خود ماں باپ بھی اپنے استعمال میں نہ