آخرت میں بھی سرخ روئی ان کا مقدر بنے گی، جب کہ اس کے برعکس ناخلف(نافرمان) اولاد والدین کے لیے دنیا میں بھی وبالِ جان ہو گی اور آخرت میں بھی اللہ کے سامنے رسوا کروانے کا سبب بنے گی۔
تربیت کی دو قسمیں :
اس کے بعد سمجھنا چاہیے کہ تربیت دو قسم کی ہوتی ہے:
اول :اولاد کی تربیت ظاہری اعتبار سے،
دوم :اولاد کی تربیت باطنی اعتبار سے
اوپر ذکر کردہ حدیثِ مبارکہ میں بچوں کی باطنی اعتبار سے تربیت کی طرف راہنمائی کی گئی ہے۔ظاہری اعتبار سے تربیت میں اولاد کی شکل و صورت، سر کے بالوں (ڈاڑھی، مونچھ، بغل و زیرِ ناف کے بالوں )کی شرعی ہیئت، شرعی لباس، طور اطوار(کھانا کھانے، پانی پینے، اٹھنے بیٹھنے، ملنے جلنے وغیرہ ) جیسے کام داخل ہیں ، اس کے علاوہ اس بات پر نظر رکھنا بھی ظاہری تربیت میں داخل ہے کہ بچوں کو دوسروں سے پیسے مانگنے یا کھانے پینے والی اشیا مانگنے، چھوٹی موٹی چیزیں یا پیسے چرانے یا دوسروں کو اذیت دینے والی شرارتیں یا بد تمیزی سے بولنے کی عادت نہ پڑے۔اسی طرح بچوں کی گھر سے باہروالی زندگی، اس کے دوست یار، اس کے تفریحی مشاغل کو بھی نظر میں رکھنا ہو گا۔اس کے تعلیمی مراحل ( دینی ہو یا عصری)کو اپنی نگرانی میں مکمل کروانا، اس کے اساتذہ سے مل کے اس کی تعلیمی حالت وکیفیت سے باخبر رہنا بھی ضروری ہے، نمازوں کے اوقات میں جب اولاد تنہا مساجد کی طرف جائے تو اس بات کی تسلی کرنا کہ وہ واقعتا مسجد میں ہی گئے ہیں ، ضروری ہے۔نیز! جب اولاد کمانے کے قابل ہو جائے اور کمانے لگے تو ان کے ذرائع معاش کی نگرانی کرنا بھی اولاد کی ظاہری تربیت میں داخل ہے۔