اللہ ﷺ یؤتیٰ بالصبیان، فیدعو لہم بالبرکۃ‘‘۔(سنن أبي داؤد،کتاب الأدب، باب في الصبي یولد، فیؤذن في أذنہ، رقم الحدیث:5105،5؍209،دار ابن الحزم )
ولادت کے موقع پر لڑکے کی پیدائش پر تو مبارک باد دینا اور لڑکی کی پیدائش پر مبارک باد نہ دینا، جاہلیت کا طرز ہے، موجودہ دور میں یہ روش بہت عام ہو چکی ہے کہ بیٹی کی پیدائش پر خوشی کا اظہار نہیں کیا جاتا، بلکہ اوروں کے سامنے بیٹی کی پیدائش کا ذکر کرتے ہوئے بھی کتراتے ہیں اور اگر کوئی مبارک باد پیش کرے تو اس کے جواب میں ’’جزاک اللہ خیراً‘‘ بھی نہیں کہتے، یہ طرزِ عمل اور روش اصلاح کی محتاج ہے۔
ولا ینبغي للرجل أن یھنیٔ بالبنت؛(فقط) بل یھنیٔ بھما، أو یترک التھنئۃ(بھما)؛ لیتخلص من سنۃ الجاھلیۃ؛ فإن کثیراً منھم کانوا یھنئون بالابن وبوفاۃ البنت دون ولادتھا۔
(تحفۃ المودود بأحکام المولود ، الباب الثالث: في استحباب بشارۃ من ولد لہ ولد و تھنئتہ،ص:58،دار ابن القیم)
مبارک کن الفاظ سے دی جائے؟
بچے کی پیدائش پر مبارک باد دینا مستحب ہے، اب یہ مبارک باد کن الفاظ سے دی جائے ؟ امام بزار رحمہ اللہ نے اپنی مسند میں ایک حدیث نقل کی ہے، جس میں آپ ﷺ نے بچے کی والدہ کو یہ پیغام بھجوایا ’’بارک اللہ لکِ فیہ وجعلہ براً تقیاً‘‘۔(مسند البزار،من حدیث النضربن أنس، عن أنس، رقم الحدیث:7310،13؍496،مؤسسۃ