الشَّیْطَانَ و جَنِّبِ الشَّیْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا‘‘ پڑھ لے ،پھر اللہ تعالیٰ اُس رات کے ملنے کی وجہ سے اگر اولاد کا فیصلہ کرلے، تو شیطان اس بچے کو نقصان نہیں پہنچائے گا۔
اس سے یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ جو بچہ شیطان کے اثرات سے محفوظ رہے گا،وہ بلوغت کے بعد احکامات ِ الہی پر بھی چلنے والا ہو گا اور ان احکامات ِالٰہی پر عمل پیرا ہوتے ہوئے وہ اپنے والدین کا فرمانبردار بھی ہو گا، اس کے برعکس جو بچہ بلوغت سے پہلے ہی شیطان کا قیدی بن جائے گا ، وہ بلوغت کے بعد بھی اس کے اثرات میں جکڑا رہے گا، چنانچہ ! وہ بچہ نہ صرف اللہ جل جلالہ کے احکامات چھوڑنے والا ہوتا ہے ،بلکہ وہ اپنے ماں باپ کا بھی نافرمان ہوتا ہے،اس وقت اس کے والدین بھی اس سے شاکی رہتے ہیں کہ یہ بچہ نافرمان ہے ، ہماری مانتا ہی نہیں ، اپنی مَن مانیوں پر چلتا ہے ،وغیرہ وغیرہ ۔ حالانکہ دیکھا جائے تو اول قصور وار اس کے والدین ہی نکلتے ہیں جنہوں نے ابتداء سے ہی اپنے آپ کو اور اپنی اولاد کو اُن افعال سے نہیں بچایا جو انسان کو گناہوں اور نافرمانیوں کی طرف لے کر چلتے ہیں ،اور اس کے اندر سرکشی پیدا کرتے ہیں ۔
دوسری بات :
جیسے گناہوں کی تاثیر ہوتی ہے ، اسی طرح نیکیو ں کی بھی تاثیر ہوتی ہے،جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت خضر علیہ السلام کے ساتھ سفر کیا ،تو اس سفر میں جہاں اور بہت سارے عجائبات ان کے سامنے آئے ، وہاں ایک یہ بات بھی سامنے آئی کہ انہوں نے ایک ایسی دیوار کو سیدھا کیا جو گرنے کے قریب تھی،یعنی اس دیوار کی تعمیر کی ، تاکہ وہ گرنے سے بچ جائے،حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دریافت کرنے پر حضرت خضر علیہ السلام نے یہ حکمت بتلائی: