’’بھائی !مسئلہ کبھی ایک حدیث سے نہیں بنتا‘‘، بلکہ اس موضوع پر (جس پر وہ حدیث پیش کر رہا ہے) تما م احادیث دیکھنی پڑیں گی، کہ اس موضوع کی ممانعت اور اثبات پر صرف یہی ایک حدیث ہے یااس کے علاوہ اور احادیث بھی ہیں ، اگر ایک سے زیادہ احادیث اس موضوع پر موجود ہیں تو پھر :دیکھنا ہو گا کہ راجح کون سی ہے اور مرجوح کون سی؟
ناسخ کون سی ہے اور منسوخ کون سی؟
ابتدائے اسلام کے زمانے کی کون سی ہے اور اسلام کے انتہائے زمانہ کی کون سی ہے؟
نبی علیہ الصلاۃ والسلام کی فعلی حدیث کون سی ہے اور قولی حدیث کون سی ہے،
ان تمام امور کو سامنے رکھتے ہوئے مجتہد فیصلہ کرے گا کہ عمل کے اعتبار سے کس حدیث کو اپنانا ہے،کس کو عمل میں نہیں لانا۔
ان تمام مراحل کے بعد اس موضوع پر تمام احادیث اور آثار کا جائزہ لیا جائے تو مسئلہ مذکورہ میں نتیجہ وہی نکلے گا جو اوپر ذکر کر دیا گیا ہے، کہ اس پیشاب سے ناپاک چیز کو اسی طریقے سے پاک کیاجس طرح بالغ افراد کے پیشاب کو پاک کیا جاتا ہے۔
اہل علم حضرات کے لیے ایک تفصیلی بحث
اسی موضوع پر مذکورہ قاعدہ یا اصول کے مطابق احادیث کے صحیح مصداق یاتطبیق و تشریح کے لیے اہلِ علم حضرات کے اطمینان اور تسلی کے لیے حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب زید مجدہم کے افاداتِ ترمذی الموسوم بہ ’’درسِ ترمذی‘‘ سے مذکورہ بحث بلفظہ نقل کی جاتی ہے:
باب ما جاء في نضح بول الغلام قبل أن یطعم ………………………فبال علیہ، فدعا بمائٍ فرشَّہ علیہ:
شیر خوار کے پیشاب کے بارے میں داؤدظاہریؒکا مسلک یہ ہے