(المستدرک علیٰ الصحیحین،کتاب الذبائح،طریق العقیقۃ وأیامھا، رقم الحدیث:7703،4؍238،دارالمعرفۃ)
اور اگر اکیسواں دن بھی گذر جائے تو پھر بعض علماء کے نزدیک جس دن بھی کرے ، ٹھیک ہے، فضیلت برابر رہے گی، ساتویں دن کی کوئی خاص فضیلت نہیں رہے گی۔
وإن تجاوز أحداً وعشرین، احتمل أن یستحب في کل سابع، فیجعلہ ثمانیۃ وعشرین، فإن لم یکن، ففي خمسۃ و ثلاثین، وعلیٰ ھذا، قیاساً علی ما قبلہ، واحتمل أن یجوز في کل وقت؛ لأن ھذا قضاء فائت، فلم یتوقف، کقضاء الأضحیۃ وغیرھا۔وإن لم یعق أصلاً، فبلغ الغلا، وکسب، فلا عقیقۃ علیہ۔ وسئل أحمد عن ھذہ المسألۃ، فقال:’’ذٰلک علیٰ الوالد‘‘۔یعني: لا یعق عن نفسہ؛ لأن السنۃ في حق غیرہ۔
(المغنيلإبن قدامۃ، کتاب الذبائح، باب ویذبح یوم السابع، المسألۃ:1771،13؍397،دار عالم الکتب)
عقیقۃ میں کتنے جانور ذبح کیے جائیں گے؟
عقیقہ میں سنت یہ ہے کہ لڑکے کی طرف سے دو جانور اور لڑکی کی طرف سے ایک جانور ذبح کیاجائے گا، چاہے یہ جانور نر ہو یا مادہ؛ البتہ اگر لڑکے کے عقیقے کے لیے دو جانور نہ ہوں تو ایک جانور ذبح کرنے کی بھی گنجائش ہے۔
عن أم کرز أن رسول اللہ ﷺ قال:’’عن الغلام شاتان وعن الجاریۃ شاۃ، لا یضروکم ذکراناًً أم إناثاً‘‘۔