کو کسی انسان کے لیے رکھنا جائز نہیں ہے،پھر صفاتی ناموں کی دو قسمیں ہیں :ایک جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہیں ، مثلاً:’’رحمان،خالق، رزاق، قدوس، صمد، قیوم، باری،غفار،متکبر، قہار، احد، ذوالجلال والاکرام‘‘ وغیرہ ، دوسرے جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص نہیں ہیں ، مثلاً:سمیع ، بصیر، رحیم، علیم، رؤف، ستار ، جمیل ، اکرم، مالک، ماجد، رافع، باسط، قائم، معطی وغیرہ ، ان میں سے پہلی قسم والے صفاتی نام رکھنے کے بارے میں یہ تفصیل ہے کہ اگر یہ نام ’’عبد‘‘ کی اضافت کے ساتھ رکھے جائیں تو جائز ہے، اور اگرعبد کی اضافت کے بغیر رکھے جائیں تو جائز نہیں ہے، اسی طرح لفظ ِ عبد کے بغیر ان ناموں کا استعمال انسانوں کے لیے جائز نہیں ہے۔ اور دوسری قسم کے نام اضافت کے بغیر بھی رکھے جا سکتے ہیں ،لیکن پسندیدہ نہیں ہے،البتہ ! اس قسم کے ناموں کے رکھنیکی صورت میں یہ ضروری ہے کہ ان ناموں کے وہ معنیٰ مراد نہ لیے جائیں جو اللہ تعالیٰ کی شان کے لائق ہیں ،مثلاً: اللہ تعالیٰ کا سمیع ، بصیر ، علیم، رحیم، عزیز، مالک ہونا کامل ، ذاتی اور نقص سے خالی ہے، اور مخلوق کے اندر یہ معنیٰ عطائی اور نقص والے ہیں ،مطلب یہ کہ ان ناموں کا استعمال اللہ تعالیٰ کے لیے ہو گا تو اس کے خاص معنیٰ ہوں گے اور اگر ان ناموں کا استعمال بندوں کے لیے ہو گا تو ان کے معنیٰ اور ہوں گے۔
تیسری بات:
ارشاد فرمایاکہ سب سے زیادہ سچ ثابت ہونے والے نام حارث اور ہمام ہیں ،’’حارث ‘‘ کے معنی کمانے والااور ’’ہمام ‘‘ کے معنیٰ ارادہ کرنے والا ہیں ،چونکہ ہر شخص کمانے والا بھی ہے اور ارادہ کرنے والا بھی، اس لیے ان ناموں سے متعلق فرمایا کہ یہ نام سب سے زیادہ سچ ثابت ہونے والے ہیں ۔اچھے اور سچے ناموں میں اسمائے باری تعالیٰ، اسمائے انبیاء کرام، اسمائے صحابہ کرام اور ان کے علاوہ ہر وہ نام جن کے معنیٰ اچھے ہوں ،